23- اگر تقلید کرنا بری بات ہے تو غیبت امام زمانہ (ع) کے دور میں لوگوں کو کیا کرنا چاہئیے؟

اگر علماء واقعی طور پر امام زمان(ع) کے نمائنده ہیں تو پھر کیوں ہزار سال سے امام کی طرف سے ان کو علم نہیں ملتا؟مثلاً ابھی تقریباً سو مرجع تقلید موجود ہیں جن کے راسلہ بھی ہے. ہر کوئی ادعا کرتا ہے کہ ‘اے لوگوں میں زیاده علم رکھتا ہوں.’ مجھ سے تقلید کرو. مگر کیوں امام زمان(ع) ان سب کو ایک ہی راسله نہیں دیتے، تا ان کے اختلافات ختم ہوجائیں؟کیا مشکل امام کی طرف سے ہے یا علما کی طرف سے؟

امام باقر(ع) فرماتے ہیں: «الله تعالی جب کسی قوم پر غضب کرتا ہے، تو ہمیں ان کی مجاورت سے دور کرتا ہے»(منبع: شرح أصول الكافي – مولي محمد صالح المازندراني – ج ٦ – الصفحة ٢٧١)

سید احمد الحسن(ع) کی نظر سے غیبت ہونی ہی نہیں چاہئیے تھی۔ غیبت شیعیوں کی بے وفائی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے اور شیعہ توبہ کے ذریعے غیبت کو ختم کر سکتے ہیں اور ظہور امام مہدی(ع) کے لئے زمینہ تیار کر سکتے ہیں.

امام صادق(ع) فرماتے ہیں: «جب بنی اسرائیل پر عذاب لمبا ہوگیا۔ تو وه لوگ رونے لگے اور چالیس صبح الله کے در پر روئے اور ضجه مارتے رہے. پھر الله تعالی نے 170 سال ان کے فرج (گشائش) میں تعجیل کی (چھوٹ دی) اور موسی و ھارون کو وحی بھیجی کہ انهیں فرعون سے نجات دلائیں. ویسے ہی تم (شیعہ) اگر ایسا کروگے تو الله ہمارے فرج کو لائے گا اور اگر ان کی طرح نہ کرو، تو امر ظهور اپنےتعیین کئے وقت پر ہوگا»(تفسیر عیاشی، ج 2، ص 154)

اس ایک ہزار و سو سال میں کب علماء یا بزرگان شیعه، بنی اسرائیل کے علماء کی طرح صحراوں میں چلہ پر گئے اور خاک بر سر ہو کر مولا سے ظهور کی التجا کی؟

ظهور کی چابی علماء کے ہاتھ میں ہے، لیکن وه مرجعیت اور دنیاوی ریاست سے دل خوش کئے بیٹھے ہیں.

قطعاً یہ ممکن نہیں کہ ہر کوئی اپنا مرجع تقلید بنے امام همارا کہتا یہ ہے کہ لوگوں کو چاہئیے اپنا علم امام زمان (ع) سے دریافت کریں کیونکہ ان کا علم یقینی ہے جبکہ مراجع کے علم ظنی اور گمان پر مبنی ہے.

مراجع احتمال و ظن و گمان کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں اور بہت سارے مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں. قرآن میںا ارشاد ہوتا ہے کہ جو کچھ غیر خدا سے ہو اس میں اختلاف بہت ہوتا ہے.(نساء، 82)

کیوں امام مهدی (ع)ایک ہزار دو سو سال سے پرده غیبت میں ہیں؟ کیا آنحضرت نرم دل نہیں؟

نہیں ایسا نہیں! بلکہ امام مہدی (ع) سب سے زیاده ظہور کے مشتاق ہیں. لیکن جو چیز غیبت کا سبب بنی ہے، شیعہ اور علماء کی بی وفائی ہے۔ مطلب آنحضرت غائب نہیں ہوئے بلکہ یہ شیعہ ہی ہیں جو انہیں غیبت میں بھیجے ہوئے ہیں۔ وه منتظر ہیں اور شیعہ غائب ہیں. افسوس ہے 313 اصحاب با وفا نہیں مل رہے!

سب سے دردناک بات یہ ہے کہ علماء خود هی اپنی کتابوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ «غیبة منا» یا «عدمه منا» یعنی غیبت ہماری وجہ سے وجود میں آئی (شرح تجرید الاعتقاد، ص 285.

غیبت کی داستان درج ذیل کہانی کی طرح ہے:

ایک باپ کی کچھ اولاد تھی. بچوں نے باپ کو اتنی اذیت دی کہ وه گھر چھوڑ کر چلاگیا. باپ کا مقصد یہ تھا کہ بچے ہوش کے ناخن لیں اور پشیمان ہوکر باپ کو ڈھونڈنے آئیں اور کہیں کہ «ہم نے غلطی کی ہے اور اب کبھی آپ کو اذیت نہیں دیں گے» لیکن اس حالت میں کہ باپ بچوں کا منتظر تھا اسے ایک بری خبر سنائی دی. بچوں نے بڑے بھائی کو اپنے باپ کی جگہ بٹھایا اور باپ کو فراموش کردیا، انہیں یقین ہوگیا کہ باپ ہمیشہ کے لئے گیا ہے اور اس کے نہ ہونے کے عادی ہو گئے.

داستان غیبت امام مہدی(ع) بھی کچھ یوں ہی ہے. چاہیئے تھا کہ ہم سب امام مہدی(ع) کے پیچھے جائیں، توبه کریں اور التجا کریں کہ مولا واپس آجائیں، لیکن علماء آنحضرت کی جگہ پر بیٹھ گئے اور لوگوں کو اپنی طرف بلانے لگے. اسی لئے غیبت ایک ہزار سال سے زیاده لمبی ہوگئی.

امام صادق(ع) فرماتے ہیں: اگر قائم قیام کرے اہل فتویٰ (جن چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے اور اس کے بارے میں فتوی دیا ہوگا) سے انتقام لے گا. وه (علما) اور ان کے پیروگار نیست و نابود ہوجائیں. دین خدا ناقص تھا جسے کامل کرنا چاہتے تھے؟! یا اس میں کوئی انحراف تھا جو اس کو صحیح کرنا تھا؟!

یا لوگ اس کے خلاف عمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے تا کہ لوگ ان کی پیروی کریں؟!

یا پھر (علما) لوگوں کو سچ کی طرف امر کئے اور وه سرپیچی کئے تھے؟!

یا (مختار رسول الله(ص)) اس چیز سے ناراض تھے جس پر وحی کی گئی ہے، تبھی (علما) اسے اصلاح کرنا چاهتے تھے؟!

اور یا دین ان کے دور میں مکمل نہیں ہوا پھر اسے مکمل کرنا چاہتے تھے؟!

یا پھر حضور(ص) کے بعد کسی نبی کو آنا تھا جو (علما کو) اس کی پیروی کرنا تھا؟!(الزام الناصب، ج 2، ص 190)

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

«دین میں تقلید کرنے سے باز رہو جو اپنے دین میں تقلید کرتا ہے، ہلاک ہوجاتا ہے »

اور الله کا ارشاد ہے: «وه لوگ (یہود و نصاری) اپنے دانشوروں اور علماء کو الله تعالی کی جگہ اپنے رب بنائے ہوئے ہیں»

الله کی قسم، وہ لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے اور روزه نہیں رکھتے بلکہ وہ لوگوں کے لئے حرام الهی کو حلال اور حلال الهی کو حرام قرار دیتے ہیں پھر بھی ان (علما) سے تقلید کی تو (در اصل) ان کی عبادت کی حالانکہ خود کو (اس بات کا) پتہ ہی نہیں۔».( تصحيح اعتقادات الإمامية – الشيخ المفيد – ص ۷۲ – ۷۳. البرهان ج 10 ص120)

سید احمد الحسن(ع) عقلی قاعده کے ذریعے جو حوزه میں تعلیم دیا جاتا ہے، مجتهدین کو رسوا کرتا ہے یہ کہ «جس کے پاس کچھ نہیں وه دوسرے کو کچھ نہیں دے سکتا»

یہ علم کے مدعیان ، لوگوں کی ہدایت کے علم سے بے بهره ہیں اور اوپر (ملکوت) کے ساتھ ان کا رابطہ منقطع ہے.تو پھر کیسے وہ لوگوں کو اوپر (ملکوت) کی طرف ہدایت کر سکتے ہیں؟

در اصل امام زمان(ع) دین کی زنده حقیقت ہے اور مومن کو چاہیئے امام زمان(ع) سے مرتبط ہوجائیں.

کئی اشکالات علماء پر وارد ہیں اگر تحقیق کروگے ان کے بارے میں جان سکوگے. کلام و فلسفے کی انحرافات اور حضرت علی(ع) کے لقب «آیت الله العظمی» اپنے اوپر لگانے سے لے کر امریکی ڈیموکریسی کو حلال کرنا اور ربا کو حلال کرنا اور لوگوں سے خمس وصول کرنا اور…

You may also like...

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے