24- عقل کہتی ہے کہ جو شخص نہیں جانتا ان سے رجوع کر کے پوچھے کہ جنہیں مسائل کا پتا ہے. پھر ہمیں علماء کی تقلید کرنی چاہیئے.
عقل کہتی ہے کہ ہمیں عالم کے پاس جانا چاہیئے، جس طرح کہ بیمار فرد ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے لیکن دین میں بات کچھ اور ہے کیونکہ دین الله کی طرف سے آیا ہے اور صرف وه شخص جو الله سے متصل ہے اور الله ان کی تایید کرتا ہے وہی عالم دین ہے یعنی امام معصوم(ع). ایک جانب سے جیسے کہ اھل بیت نے فرمایا اس عالم کی طرف رجوع کرنے میں کوئی اشکال نہیں جس کا کلام سو فیصد معصوم کا ہے یعنی کلام معصوم کو بغیر کوئی کمی بیشی نقل کرتا ہے.
کیونکه ہم امام کے کلام کو واسطے سے دریافت کر رہے ہیں نہ کہ نقل کرنے والے کا ظن و گمان کو.
علماء جیسے کہ خود معترف ہیں بہت سارے مسائل میں یقین تک نہیں پہنچتے ہیں اور اپنے ظن و گمان کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں.
تقلید صرف معصوم امام سے صحیح ہے اور غیر معصوم سے جائز نہیں. بیشتر مسائل میں انہیں کلام معصوم کا نہیں پتا اور صرف اپنے ظن و گمان پر حکم جاری کرتے ہیں اور حتیٰ کہ بہت مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں.
جب مراجع کو خود نہیں پتا کون زیاده علم رکھتا ہے اور سب عالم ہونے کے دعویدار ہیں تو آخر عوام کو کس کی تبعیت کرنا چاہئیے. یہ اختلافات ختم نہیں ہوں گے مگر یہ کہ سب مراجع، عالم یعنی امام مهدی(ع) کی طرف رجوع کریں.
امام صادق(ص) نے ہمیں سیکھایا ہے کہ اگر شیعہ چالیس روز عاجزانہ طریقے سے الله سے امام مہدی(ع) کو مانگیں، تو ممکن ہے ظهور درجنوں یا صدیوں سال پہلے واقع ہوجائے. (تفسیر عیاشی، ج 2، ص 154)

حالیہ تبصرے