وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟
1.شیخ صدوق کتاب (کمال الدین و تمم النعمۃ) ص 77 میں کہتا ہے:
(ائمہ کی تعداد بارہ افراد ہیں اور بارہواں وہ ہے جو زمین کو عدل سے بھر دے جیسا کہ یہ ظلم سے بھرا ہوا ہے۔ اور اس کے بعد وہی ہو گا جو وہ فرماتے ہیں۔ یا تو اس کے بعد کوئی امام ہو گا یا کہ قیامت برپا ہو جائے گی ۔ اور اس معاملے میں ہمارا عقیدہ بارہ اماموں کی امامت کو تسلیم کرنا ہے اور جو کچھ آنحصرت اس کے بعد کے بارے میں فرمائیں گے۔
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امامت کو بارہ اماموں کی حد تک محدود ہونے کو نہیں مانتے تھے۔ کیونکہ انھوں نے اس سلسلے میں کہا: ( اور اس کے بعد وہی ہو گا جو وہ فرماتے ہیں۔ یا تو اس کے بعد کوئی امام ہو گا یا کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔)
اس کا مطلب ہے کہ شیخ صدوق امام کے قیام یا قیامت کے درمیان تذبذب کا شکار ہیں۔ اس لیے اس نے بارہ سے زیادہ اماموں کے ساتھ نیا امام کا منصوب ہونے کو جائز سمجھا اور یہ قطعاً نہیں کہا کہ امامت بارہ اماموں تک محدود ہے۔
تو اگر اسے ولی عصر کے بعد کے ائمہ کے بارے میں قطعی یقین نہیں ہے تو اسے بارہ اماموں تک امامت کے محدود ہونے کا بھی قطعی یقین اور اعتقاد نہیں ہے۔

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

2.شیخ مفید کتاب ارشاد جلد 2 صفحہ 387 میں کہتاہے: ( اور قائم کی حکومت کے بعد کسی کی حکومت نہیں۔ سوائے اس کے جو وہ اپنے بیٹے کے قیام کی روایت میں تحفہ میں لایاہے، انشاء اللہ اور اس کا جواب یقین اور ثبوت کی صورت میں نہیں دیا گیا ہے اور بہت سی احادیث میں مذکور ہے کہ اس امت کا مہدی قیامت سے چالیس دن پہلے وفات پائے گا۔
وہ دن جس میں افراتفری ہو گی اور اس کی نشانی مُردوں کا خارج ہونا اور حساب و کتاب کی گھڑی کا قیام ہے اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ توفیق اور سچائی کا ولی ہے اور ہم اسے گمراہی سے بچنے کی درخواست کرتے ہیں۔ وہی ہے جو ہمیں سیدھی راہ دکھاتا ہے…)۔
ظاہر ہے کہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ اپنے الفاظ میں کہتے ہیں کہ امامت امام مہدی علیہ السلام کی وفات سے ختم نہیں ہوتی۔
بلکہ ممکن ہے کہ ان کے بعد ان کا بیٹا امامت سنبھال لے۔ جیسا کہ روایت میں مذکور ہے، اور بلکل وہ اس بات پر یقین حاصل نہیں کیاہے۔ لہٰذا شیخ مفید اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ امامت صرف بارہ اماموں تک محدود ہے، کیونکہ انہیں اس بات پر یقین حاصل نہیں ہوا ، اور وہ ان کے بعد امام مہدی کے بیٹے کے قیام، یا صاحب الزمان ع کی وفات کے چالیس دن بعد قیامت ہونے کے درمیان شک میں تھے۔
پھر رسول اللہ ص کا ارشاد: (… اس کی حکومت کی کوئی انتہا نہیں ہے، سوائے قیامت کے چالیس دن پہلے(کتاب سليم بن قيس هاللى، تحقيق محمد باقر انصاری: ص 478۔)
اس حدیث کا امام مہدی کی نسل سے مہدیوں کے حکم سے کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے کیونکہ روایت میں ہے کہ: ( ان کی حکومت کی کوئی انتہا نہیں ہے ) اور انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی زندگی یا عمر کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اور امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا انحصار امام مہدی کی زندگی پر نہیں ہے کیونکہ آنحضرت کے بعد ان کی اولاد اسے ایک کے بعد ایک جاری رکھیں گے۔
اور مہدیوں کا حکم ان کے والد امام مہدی کاحکم ہے، جس طرح بارہ اماموں کا حکم رسول خدا ص کا حکم تھا، ان سب کی ابتدا ایک ہی منبع سے ہوئی ہے۔ پھراس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے قیام کے بعد قیامت تک کوئی حکومت نہیں ہے سوائے آل محمد ص کے لیے۔ اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مہدیین آل محمد ص سے ہیں اور وہ قائم کے عترت (خاندان) سے ہیں جو کہ ایک اور حدیث میں ہے:
رسول اللہ ص نے فرمایا: (… دنیا ہم سے پہلے یا ہمارے بعد کسی کے لیے نہیں چھوڑی جائے گی۔
ہماری حکومت آخری حکومت ہے کہ ہر دن کی بجائے دو دن اور ہر سال کی بجائے دو سال ہوتے ہیں۔ اور ہم اہل بیت میں سے میری اولاد میں سے وہ ہے جس نے زمین کو عدل سے بھر دےگآ جیسا کہ یہ ظلم و جبر سے بھرا ہوا ہے۔( کتاب سليم بن قيس هلانى، تحقيق محمد باقر انصاری: ص 427)
ان کا یہ ارشاد کہ (دنیا ہم سے پہلے یا ہمارے بعد کسی کے لیے نہیں چھوڑی جائے گی)۔ یعنی وہ تمام حکومتیں جو قائم کے قیام سے پہلے موجود تھیں۔ ہر کوئی زوال اور تباہی کی طرف مائل ہے اور قائم کے قیام کے بعد کوئی حکومت باقی نہیں رہے گی سوائے اہل بیت ع کی۔ وہ حکومت جس کے بانی قائم آل محمد ہیں اور یہ آخری حکومت ہے جو قیامت تک قائم رہے گی۔
اور امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ( ہماری حکومت آخری حکومت ہے اور اہل بیت کی کوئی حکومت نہیں ہوگی سوائے تمام حکومتوں کے بعد۔ شاید جب وہ ہماری سیرت کو دیکھیں گے تو کہیں گے: اگر ہم حکومت کرتے تو ہم ان کی سیرت کو اپناتے اور یہ خدا کا کلام ہے جو کہ فرماتا ہے: “اور انجام متقیوں کا ہے”

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

3.شیخ طبرسی اعلام الوری باعلام الهدی، جلد 2، ص 295 میں کہتے ہیں: ( صحیح السندی کی روایت ہے کہ فرماتے ہیں: قائم کی حکومت کے بعد اب کسی کے لیے کوئی حکومت باقی نہیں رہی گی سوائے اس کے جو اس کے بیٹے کی قیام کے بارے میں جو روایت ہوئي ہے، انشاء اللہ، اور روایت یقین اور ثبوت تک نہیں پہنچی ہے اور اکثر روایات میں آیا ہے کہ امام مہدی (عج) کی وفات نہیں ہوگی سوائے قیامت سے چالیس دن پہلے، جس دن افراتفری ہوگی اور اس کی نشانی مُردوں کا خروج اور قیامت کا واقع ہونا ہے اور خدا ہی بہتر جانتا ہے)۔
امام مہدی کی وفات کے ساتھ امامت کے خاتمے کے بارے میں یقین اور ثبوت کے عدم موجودگی اور شیخ مفید کے کلام اور شیخ طبرسی کا شکوک ایک دوسرے کے قریب ہیں۔

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

  1. ابن ابی فتح اربلی کشف الغمہ، ج 3، ص 266 میں کہتے ہیں: (اورقائم کی حکومت کے بعد اب کسی کے لیے کوئی حکومت باقی نہیں رہی گي سوائے اس کے جو اس کے بیٹے کی قیام کے بارے میں روایت ہوئی ہے، انشاء اللہ، روایت یقین اور ثبوت تک نہیں پہنچی ہے اور اکثر احادیث میں آیا ہے کہ امام مہدی (عج) کی وفات نہیں ہوگی سوائے قیامت سے چالیس دن پہلے، اس دوران افراتفری ہوگی، اور اس کی نشانی مُردوں کا خروج اور قیامت کا واقع ہونا ہے اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہے اور وہ حق کی کامیابی کا محافظ ہے اور ہم اس سے گمراہی سے بچنے کا سوال کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ سے ہم سیدھی راہ پر چلیں گے)۔
    اور یہ لفظ شیخ مفید کے اس لفظ سے ملتا جلتا ہے جس کا ذکر ہم نے پہلے کیا تھا۔

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

  1. شریف مرتضی رسائل جلد 3 صفحہ 145 اور 146 میں کہتاہے: ( ہم اس یقین تک نہیں پہنچے ہیں کہ حضرت صاحب الزمان محمد بن حسن ع کی وفات کے بعد تکلیف چھوڑدی جائےگي، بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے بعد دنیا کا طویل عرصہ گزر جائے اور جائز نہیں ہے کہ ان کے بعد زمانہ ائمہ کے وجود سے خالی رہے۔ بلکہ مناسب یہی ہے کہ ان کے بعد امام ہوں کہ دین اور دین والوں کے مفادات کی حفاظت اور صیانت برقرار رہے اور یہ امامت کے طریقے سے متصادم نہیں ہے۔ کیونکہ جو ہم تعبدی طور پر (وجہ جاننے بغیر) انجام دے رہے ہیں معلوم ہوتاہے کہ ہم واضح طور پر بارہ امام کے ماننے والے ہیں اور اس بات کو کہنا، بارہ اماموں کے عقیدہ سے ہٹنے کا سبب نہیں بنتا کیونکہ بارہ امام والے وہ ہوتا ہے جو بارہ اماموں کو مانتا ہے اور ہم نے اس کو ثابت کر دیا اور یہ وہ چیز ہے جس سے صرف ہم شیعہ ہی دوسروں سے الگ ہو جاتے ہیں)۔
    شریف مرتضیٰ کے الفاظ کسی وضاحت کے محتاج نہیں۔ وہ یقینی طور پر یہ بھی نہیں مانتا کہ امام مہدی کی وفات کے ساتھ ہی امامت ختم ہو جائے گی۔ بلکہ آنحضرت کے بعد بھی اماموں کے وجود کی طرف اشارہ کرتاہے۔

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

  1. شیخ علی نمازی شاہرودی مستدرک سفینہ البحار، جلد 10، صفحہ 517-516 میں کہتاہے:
    ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام سے کہا: اے فرزند رسول میں نے آپ کے والد محترم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: قائم کے بعد بارہ مہدی ہیں۔ حضرت نے فرمایا: میرے والد نے فرمایا بارہ مہدی اور بارہ امام نہیں کہا بلکہ وہ ہمارے شیعوں میں سے ہیں جو لوگوں کو ہمارے حق کے علم کی دعوت دیتے ہیں۔
    میں کہتاہوں: (اس روایت سے ابو حمزہ اور ابو بصیر کی روایت کا مفہوم معلوم ہوتا ہے اور اس میں یا اس کے علاوہ میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ امام زمانہ عج کے بعد بارہ مہدیوں کے وجود پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ وہ قائم کے اوصیا میں سے رہنما اور ان کے امر کے محافظوں میں سے ہیں کہ زمانہ اور زمین خدا کے حجت سے خالی نہ ہوں۔
    اور شیخ نمازی یہاں نہ صرف امام زمان علیہ السلام کے بعد ائمہ کے وجود کو جائز سمجھتاہے، بلکہ وہ کہتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ زمانہ اور زمین خدا کے حجت سے خالی نہیں رہے گا۔

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

  1. مرزائی نوری نجم الثاقب، جلد 2، صفحہ 73 میں امام مہدی کے ظہور کی بارہ وجوہات بیان کرنے کے بعد کہتاہے:
    ) اور ان خبروں کے خلاف کبھی کوئی خبر نہیں آئی، سوائے ایک حدیث کے جسے شیخ ثقہ فضل بن شادان نیشابوری نے حسن بن علی خراز سے صحیح سند میں نقل کیا ہے اور کہا ہے: (علی بن حمزہ امام رضا علیہ السلام کے پاس آئے اور ان سے کہا: کیا آپ امام ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: میں نے آپ کے دادا جعفر بن محمد ع سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: کوئی امام نہیں ہے مگر یہ کہ ان کے کوئی بیٹا ہو۔ امام رضا ع نے فرمایا: اے شیخ! تم بھول گئے ہو یا بھلارہے ہو؟! جعفر ع نے یہ نہیں فرمایا ۔ بلکہ انہوں نے فرمایا: کوئی امام ایسا نہیں ہے جس کی اولاد نہ ہو، سوائے اس امام کے جو حسین بن علی ان کے زمانے میں خروج کریں گے۔ کیونکہ ان کے لیے کوئی ‌اولاد نہیں ہے۔ اس نے کہا: آپ ٹھیک فرمارہے ہیں، میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ یہ آپ کے دادا نے کہا تھا)۔
    شیخ طوسی نے اپنی کتاب غیبت میں اس خبر کو بیان کیا ہے اورکہاہے اس امام سے مراد جس کی کوئی اولاد نہ ہو۔ یعنی وہ امام جس کا امام بننے کے لیے کوئی بیٹا نہ ہو اور وہ خاتم اوصياء ہے اور ان کی اولاد نہیں جوامام بنے، یا وہ جس نے حسین بن علی ان کے زمانے میں خروج کریں گے ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور یہ مذکورہ خبر سے متصادم نہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے)۔
    مرزا نوری نے اپنے کلام میں جو کم سے کم بات کہی وہ یہ ہے بارہ اماموں سے زیادہ اماموں کا ہونا جائز ہے۔ بلکہ جنھوں نے نجم الثاقب میں مرزا نوری کا کلام پڑھا ہے۔ ان کے لیے یقینی بات ہے کہ مرزائی نوری امام مہدی کی نسل سے امامت مہدیین کے قائل ہیں اور یہاں پر شک سے دوچآر ہوا ہے؛ کیونکہ وہ اس حدیث سے جواب دینے سے قاصر ہیں کہ امام مہدی کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے ذکر کیا اور فرمایا: وہ امام جن پر حسین بن علی ع خروج کریں گے، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ یعنی امام حسین علیہ السلام ممکن ہے امام مہدی کے اولاد، یعنی مہدیین میں سے کسی ایک پرجن کی اولاد نہیں، خروج کرے۔

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

  1. شهید سید محمد باقر صدر (رحمتہ اللہ علیہ) نے کتاب “جامعه ی فرعونی” میں فرمایا: ” جلد میں مہدی (علیہ السلام) تمام اسباب فساد اور انحراف کو جن کی بنیاد میں فرعونوں کا ظلم اور ان کا ستم ہے، تباہ کر دیتا ہے۔ اور انصاف اور الہی عدل کی جامعہ بنا دیتا ہے اور انسانیت کے تمام شعبوں میں راہیں ترسیم کرتا ہے۔ پھر ان کے بعد بارہ خلیفہ آتے ہیں، جو لوگوں کے درمیان وہی سنت اور طریقہ کار جو آپ نے بنایا ہوتا ہے، کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور ان بارہ خلیفہ کی حکومت کے دوران، انسانی جامعہ انسانیت، علم اور اخلاق کی بلندی کہ اس درجہ تک پہنچتی ہے، جو کسی چیز کی خواہش نہیں کرتی، مگر خداوند کی مرضی اور یہ وقت وہ ہوتا ہے جب زمین کے وارثان حقیقی ظاہر ہوتے ہیں، جس پر خداوند نے فرمایا: “زبور میں، ذکر کے بعد لکھا ہوتا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔”( جامعه ی فرعونى: باب 4 فصل30 ص 175۔)

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

  1. شہید سید محمد صادق صدر، کتاب “تاریخ ما بعد از ظهور” جلد ۳ صفحہ ۷۷۹ میں اس موضوع پر کہتاہے: “جیسا کہ زیادہ تر روایات اوران کے کلام – مراد طبرسی – نے بیان کیا ہے، کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی وفات نہیں ہوگی، مگر قیامت کے چالیس روز قبل … اور ان روایات جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ قیامت کے چالیس روز قبل، امام مہدی علیہ السلام رفع ہوں گے – یعنی ان کی وفات ہوجائے گی – ؛ ہم اس کا جواب دیں گے کہ اس مقام پر ‘حجت’ کا مراد امام مہدی علیہ السلام نہیں ہے، بلکہ یہ کوئی دوسرا شخص ہوسکتا ہے جو امام مہدی علیہ السلام سے ایک لمیی مدت کے بعد ظاہر ہوگا۔
    … اور تاریخی ثبوت کے لیے اولیاء کرام کی روایات کی کفایت کے نقطہ نظر سے واقعات کی تحقیق کے ہمارے طریقہ کار کے مطابق یہ واضح ہے اور ثابت کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اور یہ روایتیں ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں اور بڑی حد تک ایک ہی معنی رکھتی ہیں۔
    … اور ہمیں بھی معلوم ہوتا ہے کہ روایات رجعت ثابت نہیں ہوتیں اور اولیاء کی روایات، جیسا کہ ہم نے سنا، ثابت ہونے کے قابل ہیں۔ لہذا ہمارے لئے اولیاء کی روایات کی تصدیق کرنے کے سوا جیسا کہ ہیں، کوئی راستہ ممکن نہیں ہے۔”

وه علما جو امام مہدی علیہ السلام کے بعد امامت کے جاری رہنے کے امکان یا اس کی ضرورت پر یقین رکھتے ہیں،
وہ کون ہیں؟

  1. شیخ علی کورانی کتاب “معجم موضوعی امام مہدی” میں، باب )یمانی کعب ، مہدی ع کے بعد میں آئے گا اور وہ قریش کو تباہ کر دے گا)۔ کہتاہے: “لیکن ہماری حدیث کے ںرائع اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اللہ کی الہی وعدہ شدہ دولت، امام مہدی کے ذریعہ قرنوں بعد بھی جاری رہے گی، اور ان کے بعد مہدی کی اولاد، مہدیین کے ہاتھ میں جاری رہے گی، اور خدا زمین پر حکومت کے دوران کچھ منصوبے بنائے گا، اور پیغمبر اور ائمہ ایک طویل عرصے تک دنیاوی زندگی (عام زندگی یا حکومت) کی طرف لوٹتے ہیں۔ ، اور عیسی علیہ السلام کی نزول امام مہدی کے دور میں ہوگا۔ وہ کچھ مدت کے لیے زندگی کریں گے اور وفات پائیں گے۔ ، اور دجال امام مہدی کے دور میں خروج کرےگا، اور آنحضرت اس کی گمراہی کو دور کرکے اسے مار ڈالے گا۔( مہدویت کے شعبے میں خصوصی تحقیقی مرکز کی اشاعتوں کا الیکٹرانک پروگرام)
    لہذا اہل بیت کے پیروکاروں کے عقیدہ کی ترویج کہ امامت کو بارہ امام تک محدود کرتے ہیں، صحیح نہیں ہے، قدیم، متأخر اور معاصر علماء کی باتیں اس دعوے کا ایک اور ثبوت ہیں۔ اور ان کے کلام کے علاوہ امام مہدی کی اولاد کی حقیقت اور ان کے والد کے بعد ان کی حکومت اور خلافت کے ثبوت کے بارے میں بہت سی شرعی متون و نصوص روایت ہوئی ہیں۔
    اورہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ ان نصوص میں چالیس حدیثوں سے بھی زیادہ احادیث موجود ہیں، لیکن چالیس کے نمبر کی برکت سے میں نے چالیس احادیث کو ذکرکیا جو کہ روایات اس مقدس نمبر کی نشاندہی کرتی ہیں۔

You may also like...

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے