چالیس حدیث مھدیین اور قائم کی اولاد کے بارے میں
حدیث 1
♦️شب وفات نبی مکرم اسلام اور آنحضرت کی وصیت
امام جعفر صادق ع نے اپنے والد گرامی حضرت باقر ع سے اور انھوں نے اپنے والد گرامی حضرت زین العابدین ع سے اور انھوں نے اپنے والد گرامی حسین زکی شہید سے اور انھوں نے اپنے والد گرامی حضرت امیر المومنین ع سے نقل فرمایا ہے
که رسول گرامی اسلام نے اپنے شب وفات میں حضرت امیر المومنین ع سے فرمایا
ابوالحسن میرے لیے کاغذ اور قلم لے کر آؤ. اس کے بعد نبی مکرم اسلام نے اپنی وصیت لکھوائی اور یہاں تک پہنچا کے فرمایا۔
اے علي میرے بعد 12 امام ہوں گے اور ان کے بعد 12 مھدي. تم 12 اماموں میں سے پہلے امام ہوگے. اللہ تعالی نے آپ کو اپنے آسمان میں ان ناموں سے پکارا ہے. علي مرتضی،صدیق اکبر، فاروق اعظم، مأمون و مھدي، اور آپ کے علاوہ کسي اور میں یہ صلاحیت (یه صفت اور یه لیاقت) موجود نہیں۔
اے علی تم میرے اہل بیت اور ان کےمردہ و زندہ کے وصی ہو۔ اورتم میرے ازواج کے بھی وصی ہو
اگر ان میں سے جن کو میری زوجیت پر باقی رکہا، وہ مجھ سے قیامت میں ملاقات کریں گی اورجن کو تم نے طلاق دے دیں ان کا تعلق مجھ سے ختم هوجائےگا اور وہ کبھی مجھ سے نہیں ملیں گی اور میں ان کو روز قیا مت نہیں دیکھوں گا۔
اور تم میرے بعد میری امت میں خلیفہ اور میرے جانشین ہو اور
اگر اُن کی وفات کا وقت آیا تو اِن (جانشینی) کو میرے بیٹے حسن کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو میرے بیٹے حسین شہید مقتول کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے سید عابدین ذی الثفنات،علی کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے محمد باقر کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے جعفر صادق کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے موسی کاظم کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے علی رضا کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے محمد ثقہ تقی کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے علی ناصح کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے حسن فاضل کے حوالے کرے۔
اگر ان کی وفات کا وقت آیا تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے محمد، ذخیرہ آل محمد ص کے حوالے کرے۔
اور وہ بارہ امام ہوں گے۔
پہر ان کے بعد بارہ مھدی ہیں۔
(جب ان (بارویں امام) کی وفات کا وقت آیا) تو ان (جانشینی) کو اپنے بیٹے کے حوالے کرے جو پہلے مقربین میں سے ہوگا
جس کے تین نام ہیں. اس کا پهلا نام میرانام اور دوسرا نام میر ے والد کا نام ہے اور وہ عبداللہ اور احمد ہے اور تیسرا نام المھدی ہے اور وہ پہلے مومنین میں سے ہے۔
📚الغیبة الطوسی ص 150 ح 111 ۔ بحار الأنوار ج 36 ص 260 ح 81 ۔ بحار الأنوار ج 53 ص 147 ح 6 ۔ مختصر غاية المرام ج 2 ص 241 ۔ مختصر بصائر الدرجات ص 39 ۔ إثبات الهداة ج 1 ص 549 ح 376۔ الايقاظ من الهجعة ص 393 ۔ العوالم عبدالله البحراني ج 3 ص 236 ح 227 ۔ نوادر الاخبار الفیض الکاشاني ص 294 ۔ مكاتيب الرسول الشيخ الميانجي ج 2 ص 96 ۔ تاريخ ما بعد الظهور ص 641.
.
حدیث 2
سید بہاءالدین نجفی اپنے کتاب منتخب انوار المضیئة میں فرماتے ہیں:
اور احمد بن محمد العیادی سے اپنے والد سے ایک اور روایت ہے جس کا بیان کرتا ہوں:
علی بن عقبہ بیان کرتے ہیں:
قال امام الصّادق (ع):
أنّ منّا بعد القائم (ع) اثناعشر مهدیّاً من ولد الحسین (ع)
♦️ترجمه
🔵 امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
درحقیقت ہم سے، قائم (ع) کے بعد، حسین (ع) کی نسل سے بارہ مہدی ہیں۔
📚 منتخب الأنوار المضيئة: ص 354-353 مختصر بصائر الدرجات: ص 49 ؛ بحار الأنوار: ج 53 ،ص 148.
.
حدیث 3
قاضی نعمان مغربی، علی بن الحسین، امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:
عن الإمام السجاد ع قال:
یقوم القائم منا ثم یکون بعده اثنا عشر مهدیا.
♦️ ترجمه
🔵امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: ہمارا قائم قیام کرے گا، پھر ان کے بعد بارہ مھدی ہوں گے۔
📚 شرح الأخبار للقاضی النعمان المغربی ج3 ص 400
.
حدیث 4
🔵 الصدوق: حدثنا علي بن أحمد بن محمد بن عمران الدقاق ، قال: حدثنا محمد بن أبي عبد الله الكوفي ، قال: حدثنا موسى بن عمران النخعي ، عن عمه الحسين بن يزيد النوفلي، عن علي بن
أبي حمزة ، عن أبي بصير ، قال: (قلت للصادق جعفر بن محمد (عليهما السلام): يا ابن رسول الله، إني سمعت من أبيك(ع) أنه قال: يكون بعد القائم اثنا عشر مهدياً، فقال: إنما قال: اثنا عشر مهدياً، ولم يقل: إثنا عشر إماماً، ولكنهم قوم من شيعتنا يدعون الناس إلى موالاتنا ومعرفة حقنا.
♦️ترجمه
🔴 شیخ صدوق کہتے ہیں:
علی بن احمد بن محمد بن عمران دقاق، محمد بن ابی عبداللہ کوفی سے، موسیٰ بن عمران نخعی سے، اپنے چچا حسین بن یزید نوفلی سے، علی بن ابی حمزہ سے۔ ابو بصیر سے روایت کرتے ہیں کہ: انہوں نے امام جعفر بن محمد صادق (ع) سے کہا:
(اے فرزند رسول، میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: قائم کے بعد بارہ امام ہیں) . حضرت نے فرمایا: (میرے والد نے فرمایا: بارہ مھدی اور انہوں نے بارہ امام نہیں فرمایا، بلکہ وہ ہمارے شیعوں کا ایک قوم ہے، جو لوگوں کو ہماری محبت اور حقیقت جاننے کی دعوت دیتے ہیں۔
📚 کمال الدين و تمام النعمة: ص 358
.
حدیث 5
🔴 الشيخ الطوسي في التهذيب: عن (محمد بن أحمد بن يحيى)، عن محمد بن الحسين، عن محمد بن إسماعيل، عن صالح بن عقبة، عن عمرو بن أبي المقدام، عن أبيهعن حبة العرني،قال: خرج اميرالمؤمنين(ع) إلى الحيرة فقال: لتصلن هذه بهذه- وأومى بيده إلى الكوفة والحيرة – حتى يباع الذراع فيما بينهما بدنانير، وليبنين بالحيرة مسجد له خمسمائة باب يصلي فيه خليفة القائم (ع)؛ لأن مسجد الكوفة ليضيق عنهم، وليصلين فيه اثنا عشر إماماً عدلاً، قلت: يا اميرالمؤمنين، ويسع مسجد الكوفة هذا الذي تصف الناس يومئذ ؟! قال: تبنى له أربع مساجد، مسجد الكوفة أصغرها، وهذا، ومسجدان في طرفي الكوفة من هذا الجانب وهذا الجانب- وأومى بيده نحو البصريين والغريين.
♦️ترجمه
🔴 شیخ طوسی التهذيب میں: محمد بن احمد بن یحییٰ سے، محمد بن حسین سے، محمد بن اسماعیل سے، صالح بن عقبہ سے، عمرو بن ابی مقدام سے۔ اپنے والد سے، حبہ عرنی سے، جنہوں نے کہا:
امیر المومنین (ع) حیرہ کی طرف نکلے اور فرمایا: (یہ اس سے منسلک ہوجائے گا)۔ حضرت نے اپنے ہاتھ سے کوفہ اور حیرہ کی طرف اشارہ کیا۔ (اس حد تک کہ دونوں کے درمیان ایک ذراع کی زمین چند دینار میں بیجی جاتی ہے اور حیرہ میں ایک مسجد بنائی جائے گی جس کے پانچ سو دروازے ہوں گے اور قائم علیہ السلام کا جانشین اس میں نماز پڑہے گا، کیونکہ مسجد کوفہ ان کے لیے بہت چھوٹا ہے اور اس میں بارہ امام عدل نماز پڑھیں گے)۔ میں نے کہا: (کیا اس دن کوفہ کی جو مسجد آپ نے لوگوں کے سامنے بیان کی ہے وہ ترقی کرے گی؟) آپ نے فرمایا: (کوفہ کے لیے چار مسجدیں بنائی جائیں گی، جن میں سے چھوٹی مسجد کوفہ ہو گی، اور یہ مسجد اور دو مسجدیں ہوں گی۔ کوفہ کے دونوں طرف، اِس طرف اور اُس طرف)۔ اور اپنے ہاتھوں سے کوفہ کے دونوں طرف اشارہ کیا۔
📚 تہذیب الاحکام، شیخ طوسی، ج3، ص253۔
.
حدیث 6
اصل محمد بن مثنی حضرمی کہتے ہیں: جعفر بن محمد بن شریح حضرمی، ذريح محاربی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: میں نے امام صادق (ع) سے پیغمبر اکرم (ص) کے بعد ائمہ کے بارے میں پوچھا۔
آپ نے فرمایا: (جی ہاں، علی بن ابی طالب اور ان کے اہل بیت۔
رسول الله کے بعد امام ہیں۔ پھر علی بن حسین (ع)، پھر محمد بن علی (ص) اور پھر آج تمہارا امام۔ جو بھی اس کا انکار کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے خدا اور اس کے رسول کے معرفت کا انکار کیا ہو)۔ میں نے کہا: (میں آپ پر قربان ہو جاؤں ، کیا آپ آج امام ہیں؟) میں نے یہ سوال تین بار دہرایا۔ آپ نے فرمایا: (میں نے تم سے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ تم زمین پر گواہوں میں سے ہو جاؤ۔ خدائے بزرگ و برتر نے زمین پر کوئی چیز نہیں چھوڑی، سوائے اس کے کہ اس نے اس کا علم اپنے انبیاء کو دیا
پھر الله تعالی نے جبرائیل کو ان کے پاس بھیجا کہ وہ علی (ع) کی زندگی میں ان کی ولایت کی گواہی دے اور ان کا نام امیر المومنین رکھے اور رسول خدا ص نے نو افراد کو بلایا اور آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں گواہوں میں سے ہونے کے لیے بلایا ہے، چاہے آپ اسے ظاہر کریں یا چھپائیں، پھر آپ ص نے فرمایا: اے ابوبکر! اٹھو اور امیر المومنین علیہ السلام پر سلام بھیجو، اس نے کها: کیا ہم انہیں خدا اور ان کے رسول کے حکم سے امیر المومنین کہیں؟آپ ص نے فرمایا: ہاں، ان پر سلام بھیجو، پھر فرمایا: اے عمر اٹھو، اور امیر المومنین پر سلام بھیجو .اس نے کہا: کیا ہم انہیں خدا اور اس کے رسول کے حکم سے امیر المومنین کہیں؟ آپ ص نے فرمایا: ہاں، پھر آپ ص نے مقداد بن اسود سے کہا: اے مقداد اٹھو اور امیر المومنین پر سلام بھیجو۔ اس نے اٹھ کر علی (ع) کو سلام کیا اور کچھ نہ کہا، پھر آپ ص نے ابوذر غفاری سے فرمایا: اٹھو اور امیر المومنین کو سلام کرو۔ اس نے کھڑے ہو کر سلام کیا۔پھر آپ نے حذیفہ سے فرمایا: اٹھو اور امیر المومنین علیہ السلام پر سلام بھیجو، وہ اٹھ کر سلام بھیجا .پھر آپ ص نے عبداللہ بن مسعود سے فرمایا: اٹھو اور امیر المومنین پر سلام بھیجو۔ اس نے اٹھ کر سلام کیا۔ پھر آپ ص نے بریدہ اسلمی سے فرمایا: اٹھو اور امیر المومنین پر سلام بھیجو۔ بریدہ ان میں سب سے چھوٹا تھا۔
پھر رسول اللہ ص نے فرمایا: میں نے تمہیں گواہوں میں شامل کرنے کے لیے بلایا ہے، خواہ تم اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ بعد میں ابوبکر لوگوں پر حکومت کرنے لگا جبکہ بریدہ شام میں تھے جب بریدہ واپس آئے تو ابوبکر کی مجلس میں حاضر ہوئے اور کہا: اے ابوبکر! کیا تم علی کو ہمارا سلام بھول گئے کہ ہم انہیں خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ایک واجب حکم کے طور پر امیر المومنین کہتے ہیں؟ ابوبکر نے کہا: اے بریدہ، تم غائب تھے، ہم نے گواہی دی، اور خدا ایک چیز کے وقوع پذیر ہونے کے بعد دوسری چیز پیدا کرتا ہے، اور خدا کبھی بھی اہل بیت کو بادشاہی اور نبوت ایک ہی وقت میں نہیں دیتا)۔
پھرامام صادق ع نے مجھ سے کہا: (میں نے یہ اس لیے ذکر کیا ہے کہ تم زمین پر خدا کے گواہوں میں سے ہو، بے شک رسول اللہ ص کے بعد ہم میں سے سات ایسے ہیں جو امام کے ولی (اوصیاء میں سے) ہیں، ان کی اطاعت واجب ہے۔ اور ان کا ساتواں قائم (ع) ہیں (اگر خدا اس کے لئے چاہے۔) بے شک خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے اور جو چاہتا ہے آگے لاتا ہے یا تاخیر کرتا ہے اور وہ عزیز(ناقابل شکست)اور حکیم(حکمت والا) هے
👈 پھر قائم (ع) کے بعد حسین (ع) کی اولاد میں سے گیارہ مہدی ہیں ♦️
میں نے کہا: میرے آقا، میں آپ پر قربان ہوں۔ آپ کا حکم سر اور آنکھوں پر ہے۔ ساتویں امام کون ہیں؟ (میں نے یہ سوال تین بار دہرایا) حضرت نے فرمایا: (پھر میرے بعد وہ تمہارا امام اور تمہارا قائم ہو گا، اگر خدا نے چاہا،
درحقیقت میرے والد – جو ایک اچھے والد تھے اور خدا کی رحمت ان پر ہو – فرماتے تھے: اگر آپ کو تین گواہ ملیں کہ وہ اہل علم ہوں، کہ اگر آپ ان کے لیے روایت کرتے ہیں تو خدا کے حلال و حرام پر کسی رائے کی ضرورت نہیں ہو اور اس کا تعلق قیامت تک کے واقعات سے ہو، علم ان پر چھوڑ دو، بے شک ہماری حدیث مشکل ہے، اس پر کوئی ایمان نہیں رکھتا، سوائے اس مومن کے جس کے دل کو خدا نے ایمان کے ذریعے آزمایا ہو)۔ پھر آپ نے فرمایا: (خدا کی قسم، ہم زمین اور آسمان پر الہی خزانچی ہیں ، ہم ان خزانوں کے نگہبان ہیں، جو سونے اور چاندی کے نہیں ہیں، اور قیامت کے دن ہم میں سے عرش کے اٹھانے والے محمد، علی، حسن اور حسین ہوں گے اور ان کے ساتھ چار دوسرے لوگ بھی ہوں گے، جو خدا چاہے گا)۔
📚 سولہ اصول، اصل محمد بن مثنی حضرمی: صفحہ 90-91
.
حدیث 7
🔵الشيخ الطوسي في كتاب الغيبة: محمد بن عبد الله بن جعفر الحميری، عن أبيه، عن محمد بن عبد الحميد ومحمد بن عيسى، عن محمد بن الفضيل، عن أبي حمزة، عن أبي عبد االله(ع) في حديث طويل أنه قال: يا أبا حمزة، إن منا بعد القائم أحد عشر مهدياً من ولد الحسين
♦️ترجمه
🔴 شیخ طوسی نے اپنی کتاب الغیبہ میں: محمد بن عبد اللہ بن جعفر حمیری، اپنے والد سے، محمد بن عبدالحمید اور محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے محمد بن فضیل سے، ابو حمزہ سے، وہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ ایک طویل حدیث میں فرمایا:
ای ابوحمزہ قائم کے بعد ہم میں سے، حسین کے اولاد میں سے گیارہ مھدی ہیں۔
📚 الغیبة، شیخ طوسی: ص 479-478
.
حدیث 8
🔵ابن أبي حاتم في تفسيره بسنده عن كعب الأحبار، قال: هم اثنا عشر، فإذا كان عند انقضائهم فيجعل مكان اثني عشر اثنا عشر مثلهم، وكذلك وعد االله هذه الأمة فقرأ:
{ وعداللَّه الَّذين آمنوا منكُم وعملُوا الصالحات لَيستخلفَنهم فی الْأَرضِ كَما استخلَفَ الَّذین من قَبلهم}وكذلك فعل ببني إسرائيل.
♦️ ترجمه
🔴 ابن ابی حاتم اپنی تفسیر میں کعب الاحبار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:
وہ بارہ ہیں۔ پس جب ان کا وقت ختم ہو جائے گا تو خدا ان کی جگہ ان جیسے بارہ خلفاء کو لے آئے گا اور اس طرح امت سے خدا کا وعدہ پورا ہو جائے گا جب اللہ تعالی نے فرمایا:
(تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا) اور خدا نے بنی اسرائیل کے ساتھ ایسا ہی کیا۔
📚 النور: 55
تفسیر ابن ابی حاتم: ج8، ص2628.
.
حدیث 9
🔰القاضي النعمان المغربي، قال: ومن رواية يحيى بن السلام، يرفعه إلى عبد االله بن عمر، أنه قال:
🔵 ابشروا فيوشك أيام الجبارين أن تنقطع، ثم يكون بعدهم الجابر الذي يجبر االله به أمة محمد(ع) المهدي، ثم المنصور، ثم عدد أئمة مهديين.
♦️ترجمه
قاضی نعمان مغربی کھتے ہیں:
یحییٰ بن سلام، عبداللہ بن عمر سے کہتے ہیں:
🔴 خوشخبری دے کہ ظالموں اور جابروں کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ پھر ان کے بعد ایک طاقتور شخص ہے جس کے ذریعے خدا محمد ص کی امت کو مضبوط کرتا ہے، مھدی، پھر منصور، اور اس کے بعد امامان مھدیین ہونگے۔
📚 شرح الأخبار، قاضی نعمان مغربی: جلد 3، صفحہ 400.
.
حدیث 10
شیخ طوسی، یونس بن عبدالرحمن سے نقل کرتے: امام رضا (ع) صاحب الامر کے لیے اس دعا کے ساتھ دعا کرتے تھے:
🔵اللهم ادفع عن وليك وخليفتك وحجتك على خلقك… اللهم أعطه فی نفسه وأهله و 👈ولده وذريته وأمته وجميع رعيته ما تقر به عينه وتسر به نفسه وتجمع له ملك المملكات كلها قريبها و بعيدها وعزيزها وذليلها… اللهم، صل على ولاة عهده والأئمة من بعده وبلغهم آمالهم وزد فی آجالهم وأعز نصرهم وتمم لهم ما أسندت إليهم من أمرك لهم وثبت دعائمهم واجعلنا لهم أعواناً وعلى دينك أنصاراً فإم معادن كلماتك وخزان علمك وأركان توحيدك ودعائم دينك وولاة أمرك وخالصتك من عبادك وصفوتك من خلقك وأولياؤك وسلائل أوليائك وصفوة أولاد نبيك والسلام عليه وعليهم ورحمة االله وبركاته
♦️ترجمه
🔴 اے خدا اپنے ولی اور خلیفه اور خلق پر حجت سے …. دور فرما –
اے رب، اسے، اس کے اہل و عیال، 👈 اس کی اولاد، اس کی نسل، اس کی امت اور اس کی رعایا کو ایسی چیز عطا فرما جس سے اس کی آنکھوں چمک پیدا ہو اور اسے خوشی ہو اور اس کے لیے تمام دور اور نزدیک، مضبوط اور کمزور زمینوں کی حکومت جمع کرو۔
اے اللہ اپنے عہد کے والیوں اور ان کے بعد کے ائمہ پر درود بھیجو اور ان کی مرادیں عطا فرما
اور ان کی عمر میں اضافہ فرما اور ان کی فتح کو عزت دے اور جو کچھ تو نے ان کے سپرد کیا ہے اسے پورا فرما اور ان کی دعائیں قبول فرما اور ہمیں ان کے مددگاروں اور تیرے دین کے مددگار میں شامل فرما جو تیرے کلام کی کانیں ہیں اور تیرے علم کے ذخائر اور تیری توحید کی بنیاد ہیں اور تیری مخلوق اور تیرے دوستوں اور تیرے دوستوں کی نسل سے برگزیدہ ہیں اور تیرے نبی کے اولاد کے برگزیدہ ہیں۔ اللہ کا درود، رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ پر اور ان پر
📚 مصباح متهجد: ص 409، جمال الأسبوع: ص 307۔
.
حدیث 11
🔵 الشيخ الطوسي بسنده عن أبي الحسين محمد بن جعفر الأسدي، عن يعقوب بن يوسف الضراب الغساني في ذكر قصة طويلة واستلام دفتر فيه دعاء وصلوات وصله عن الإمام المهدي(ع) فيه:(بسم االله الرحمن الرحيم، الله صلِّ على محمد سيد المرسلين، وخاتم النبيين، وحجة رب العالمين، المنتجب في الميثاق، المصطفى في الظلال، المطهر من كل آفة، البرئ من كل عيب، المؤمل للنجاة، المرتجى للشفاعة، المفوض إليه دين االله … (إلى قوله بعد أن صلى على جميع الأئمة الاثني عشر إلى الإمام المهدي:(اللهم أعطه في نفسه وذريته وشيعته ورعيته وخاصته وعامته وعدوه وجميع أهل الدنيا ما تقر به عينه وتسر به نفسه، وبلغه أفضل ما أمله في الدنيا والآخرة إنك على كل شيء قدير … (إلى قوله : وصلَّ على وليك وولاة عهدك [عهده] والأئمة من ولده ومدفي أعمارهم وزد في آجالهم وبلغهم أقصى آمالهم ديناً ودنيا وآخرة إنك على
كل شيء قدير).
♦️ ترجمه
🔴 شیخ طوسی نے ابو حسین محمد بن جعفر اسدی کا حوالہ دیا ہے اور یعقوب بن یوسف ضراب غسانی سے ایک طویل قصہ نقل کیا ہے جس میں ائمہ ع کے لیے دعا اور سلام ہے جسے امام مہدی علیہ السلام سے نقل کیا ہے، اور یہ دعا اس طرح ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اے اللہ، محمد ص پر، جو رسولوں کے اقا اور خاتم النبیین اور رب العالمین کی حجت ہیں، درود بھیجو۔ عہد کے دن چنا ہوا، سائے میں چنا ہوا، ہر آفت سے پاک، ہر عیب سے پاک، نجات کی امیدوں کا قبلہ، شفاعت کی امید کی منزل، جس کے سپرد خدا کا دین ہے،… )۔ جہاں تک تمام بارہ اماموں کو سلام بھیجنے کا تعلق ہے اور امام مہدی ع کے بارے میں فرماتے ہیں:
🔴 (پروردگار اس کو اور اس کی اولاد کو اور اس کے شیعوں کو اور اس کی رعایا کو اور اس کے خاص و عام لوگوں کو اور اس کے دشمنوں کو اور تمام دنیا والوں کو ایسی چیز عطا فرما جس سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس کی دنیا آخرت میں اس کی نیک تمنائیں پوری کردے کہ تو ہو چیز پر قادر ہے)۔ جہاں تک آپ ع فرماتے ہیں:
🔴 (اور اپنے عہد [اس کے عہد] کے ولی اور والیان عہد پر اور ان کی اولاد کے اماموں پر درود بھیج، اور ان کی عمر دراز فرما، اور ان کی عمر میں اضافہ فرما، اور انہیں دین، دنیا اور آخرت میں ان کی بعید ترین خواہشات تک پہنچا۔ آخرت، کیونکہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔)
📚 غيبت شيخ طوسی: ص273 به بعد.
مصباح متهجد: ص 406 ؛ جمال الأسبوع: ص301-306.
.
حدیث 12
🔵 الشيخ الصدوق: عن الإمام الجواد(ع) أنه قال:
🔰 (إذا انصرفت من صلاة مكتوبة فقل:
رضيت باالله رباً، وبالإسلام ديناً، وبالقرآن كتاباً، وبمحمد نبياً، وبعلي ولياً، والحسن والحسين، وعلي بن الحسين، ومحمد بن علي، وجعفر بن محمد، وموسى بن جعفر، وعلي ابن موسى، ومحمدبن علي، وعلي بن محمد، والحسن بن علي، والحجة بن الحسن بن علي أئمة، اللهم وليك الحجة فاحفظه من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله ومن فوقه ومن تحته، وامدد له في عمره، واجعله القائم بأمرك، المنتصر لدينك وأره ما يحب وتقر به عينه في نفسه وفي ذريته وأهله وماله
وفي شيعته وفي عدوه، وأرهم منه ما يحذرون، وأره فيهم ما يحب وتقر به عينه، واشف به صدورنا وصدور قوم مؤمنين).
♦️ ترجمه
🔴 شیخ صدوق امام جواد علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
🔰 (جب تم فرض نماز سے فارغ ہو جاؤ تو کہو: میں نے اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، قرآن کو اپنی کتاب، اور محمد کو اپنا نبی اور علی، حسن، حسین، علی بن حسین، محمد بن علی، اور جعفر بن محمد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسی، محمد بن علی، علی بن محمد، حسن بن علی، اور حجت بن الحسن بن علی کو اپنا امام منتخب کیا ہے اور میں ان سے راضی ہوں۔
اے خدا اوپر، نیچے، دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے سے اپنے ولی کا محافظ اور نگہبان ہو اور اسے لمبی عمر عطا فرما اور اسے اپنے حکم پر قائم(عمل کرنے والا بنا)، اپنے دین میں فتح مند بنا اور اسے وہ کچھ دکھائے جو اسے پسند ہے اور اس کی آنکھوں اپنے طرف اور اس کی اولاد، اس کا خاندان، اور اس کی جائیداد، اس کے شیعہ اور اس کے دشمن کی طرف روشن ہو جاتی ہے۔
اور اس کے دشمنوں کو جس سے وہ پرہیز کرتے ہیں، دکھائیں۔
اور اسے اپنے دشمنوں کے بارے میں جو وہ پسند کرتا ہے اور اس کی آنکھوں کا نور بن جاتا ہے، دکھائیں اور اس کے ذریعے ہمارے دلوں اور مومنین کے دلوں کو شفا دیں)
📚 من لايحضره الفقيه: ج1، ص327 ؛ کافی: ج2، ص548۔
.
حدیث 13
🔰 السيد ابن طاووس قال: وقد اخترنا ما ذكره ابن أبي قرة في كتابه ، فقال بإسناده إلى علي بن الحسن بن علي بن فضال ، عن محمد بن عيسى بن عبيد ، بإسناده عن الصالحين ، قال: وكرر في ليلة ثلاث وعشرين من شهر رمضان قائماً وقاعداً وعلى كل حال، والشهر كله، وكيف أمكنك، ومتى حضرك في دهرك، تقول بعد تمجيد االله تعالى والصلاة على النبي وآله عليهم السلام: (وكرر في ليلة ثلاث وعشرين من شهر رمضان قائماً وقاعداً، وعلى كل حال، والشهر كله وكيف أمكنك، ومتى حضرك في دهرك، تقول بعد تمجيد الله تعالى والصلاة على النبي وآله عليهم السلام:
🔵 اللهم كن لوليك القائم بأمرك، محمد بن الحسن المهدي عليه وعلى آبائه أفضل الصلاة والسلام، في
هذه الساعة وفي كل ساعة، ولياً وحافظاً وقائداً وناصراً ودليلاً ومؤيداً، حتى تسكنه أرضك طوعاً، وتمتعه فيها طولاً وعرضاً، وتجعله وذريته من الأئمة الوارثين …).
♦️ترجمه
🔰 سید بن طاؤس کہتے ہیں: ابن ابی قرہ نے اپنی کتاب میں جو کچھ ذکر کیا ہے ہم نے ان میں سے کچھ انتخاب کیا
ہم نے علی بن حسن بن علی بن فضال کا حوالہ دیتے ہوئے، محمد بن عیسیٰ بن عبید کی سند سے، صالحین کی حوالہ پر، جو کہتے ہیں:
(رمضان المبارک کی تیسویں رات کو خواہ آپ بیٹھے ہوں یا کھڑے ہوں، آپ کسی بھی حالت میں ہوں، اور اس مہینے کے دوران، آپ کے لیے جتنا ممکن ہو، اور اپنی زندگی کے کسی بھی وقت جو آپ کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کے بعد۔ اور محمد اور ان کی آل پر سلام کے بعد کھتے ہو:
🔴 (اے اللہ، اپنے ولی کے لیے، آپ کے امر کا قائم، محمد بن الحسن مہدی – سلام ہو ان پر اور ان کے آباء و اجداد پر – اس گھڑی میں، اور ہر گھڑی میں، سرپرست اور برقرار رکھنے والے اور لیڈر اور مددگار اور رہنما اور اس کا منظور کرنے والا بنیں، جب تک کہ آپ اسے اپنے سرزمین میں اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیں اور اسے زمین میں لمبائی و چوڑائی کے لحاظ سے فائدہ پہنچائیں، اور اسے اور ان کی اولاد کو زمین کا وارث کے اماموں سے بنا دیں)۔
📚 اقبال الأعمال: ج1 ص 191
بحار الأنوار: ج94 ص349
مکيال المکارم اصفهانی: ج2 ص38.
.
حدیث 14
علامہ مجلسی ایک طویل دعا میں فرماتے ہیں: ہمارے پیشروؤں کے کاموں کے پرانے نسخوں میں لکھا ہے::
🔵 (اللهم كن لوليك فی خلقك ولياً وحافظاً و قائداً وناصراً حتى تسكنه أرضك طوعاً، وتمتعه منها طولاً، وتجعله وذريته فيها الأئمة الوارثين، واجمع له شمله، وأكمل له أمره، وأصلح له رعيته، وثبت ركنه، وافرغ الصبر منك عليه، حتى ينتقم فيشتفى ويشفی حزازات قلوب نغلة،وحرارات صدور وغرة، وحسرات أنفس ترحة، من دماء مسفوكة، وأرحام مقطوعة [وطاعة] مجهولة، قد أحسنت إليه البلاء، ووسعت عليه الآلاء، وأتممت عليه النعماء، فی حسن الحفظ منك له…).
♦️ ترجمه
🔴 (اے اللہ، تیرے ولی کے لیے، تیری مخلوق کے درمیان نگہباں اور سرپرست اور رہنما اور مددگار بن، جب تک کہ تو اسے اپنی مرضی کے مطابق اپنی سرزمین میں ترتیب دے، اور اسے اس کی طول سے فائدہ دے، اور اسے اور اس کی اولاد کو زمین کے وارث بنائے، اور اس کے لیے اس کی سہولتیں جمع کردے اور اس کے امر کو مکمل کرے، اور اس کے ماتحت لوگوں کی اصلاح کرے، اور اس کے ستون کو قائم کردے، اور اسے اپنی طرف سے صبر عطا کرے، کہ وہ بدلہ لے، اور زخمی دلوں کے ٹکروں کو شفا بخشے۔ اور غصہ بھرے سینوں کی جلن کو سکون دے جو کہ(یہ سب) بہتے ہوئے خون اور رشتہ داروں سے ٹوٹنے اور نامعلوم لوگوں کی اطاعت سے پیدا ہوئے ہیں، بے شک تو نے اس کے لیے مصیبت کو خوبصورت بنایا، اور بڑھا دیا اس کے لیے رزق، اور تو نے اس کے لیے نعمتوں کو مکمل کر دیا، بھلائی کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنی طرف سے اس کے لیے…)۔
📚 بحار الأنوار : ج86، صفحہ 333-340۔
.
حديث 15
میرزای نوری نجم الثاقب میں، جلد 2، صفحہ 70: چوتھا: ہارون ابن موسی کی کتاب (مجموعہ دعوات) سے کتاب (مزار) بحار الانوار کا اختتام،
اس نے رسول الله ص اور ائمہ معصومین علیہم السلام پر ایک ایک کر کے طویل درودو سلام نقل کیا هے، حجت (ع) پر درود و سلام کے ذکر کے بعد، حجت (ع) کے والیان عهد اور ان کی اولاد میں سے ائمہ پر سلام ذکر ہوا هے:
🔵 (السلام علی ولاة عهده والائمه من ولده، اللهم صل عليهم وبلغهم امالهم وزدفی اجالهم واعز نصرهم وتمم لهم ما اسندت من امرك واجعلنا لهم اعواناً وعلی دينك انصاراً فانهم معادن کلماتك وخزائن علمك وارکان توحيدك ودعائم دينك وولاة امرك وخلصائك من عبادك وصفوتك من خلقك واوليائك وسلاسل اوليائك وصفوة أولاد أصفيائك، وبلّغهم منا التحیة والسلام، واردد علينا منهم السلام، والسلام عليهم ورحمة االله وبركاته).
♦️ ترجمه
🔴(سلام ہو ان کے والیانِ عہدپر اور ان کی اولاد کے اماموں پر، اے خدا ان پر درود بھیجو ، اور ان کی خواہشات کو پورا کر، اور ان کی عمر میں اضافہ کر، اور ان کی فتوحات کو عزت دے، اور جو کچھ اپنے امر سے تو نے ان کے سپرد کیا ہے اسے پورا کراور ہمیں ان کے ساتھیوں اور اپنے دین کے مددگاروں میں سے بنا، که وه تیرے کلام کی کانیں ہیں اور تیرے علم کے خزانے ہیں، تیری توحید کی بنیاد ہیں، تیرے دین کے بزرگ ہیں، تیرے امر (حکم) کے والی (حاکم) ہیں، اور آپ کے دوستوں کی نسل سے، اور آپ کے قریبی دوستوں کےچنے ہوئے اولاد میں سے ، اور ان پر ہمارا درود و سلام بھیجیں، اور ان کا سلام کا جواب ہماری طرف واپس بھیجیں،اور ان سب پر الله کا درود و سلام ہو۔
📚 بحار الأنوار: ج 99 ،ص 228.
.
حديث 16
کتاب فقہ الرضا (ع) میں آیا ہے:
یہ دعا وتر کی نماز میں شامل ہے اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے: یہ ایک دعا ہے جسے ہم اہل بیت (ع) دہراتے رہتے ہیں:
🔵 (…اللهم صل عليه وعلى آله من آل طه و يس، واخصص وليك، ووصی نبيك، وأخا رسولك، و وزيره، و ولی عهده، إمام المتقين، وخاتم الوصيين، لخاتم النبيين محمد(ص) وابنته البتول، وعلى سيدی شباب أهل الجنة من الأولين والآخرين، وعلى الأئمة الراشدين المهديين، السالفين الماضين، وعلى النقباء الأتقياء البررة الأئمة الفاضلين الباقين، وعلى بقيتك فی أرضك، القائم بالحق فی اليوم الموعود، وعلى الفاضلين المهديين الأمناء الخزنة)
♦️ترجمه
🔴 (اے اللہ، ان پر اور ان کی آل پر جو آل طہٰ اور یس میں سے ہیں درود بھیجو اور اپنے ولی اور اپنے پیغمبر کے جانشین اور اپنے رسول کے بھائی اور ان کے وزیر، متقین کا امام اور انبیا کے خاتم محمد ص کیلئے، اوصیا کا خاتم، کو اپنے درود کیساتھ خاص کردیں
اور ان کی بیٹی بتول بھی، اور اہل جنت کے اول سے آخر تک کے جنت کے دو سرداروں، نیز مہدیین کے راشدین ائمہ بھی، ماضی والے اور نیک پرہیزگار والے قائدین اور باقی رہنے والے فاضل ائمہ اور آپ کی سرزمین میں باقی رہنے والے، وعدے کے دن قائم بر حق، اور مہدیین کے بزرگوں، سنبھالنے والے امین بھی)۔
📚 الفقه الرضا(ع) علی بن بابويه: ص 402.
.
حديث 17
علامہ مجلسی نے امام مہدی ع کی زیارتوں میں سے ایک میں ذکر کیا ہے: جب زیارت کی نماز ادا کر لی جس کی وضاحت پہلی زیارت میں کی گئی تھی، پھر جب آپ اس سے فارغ ہو جائیں تو کہیں۔
🔵 (اللهم صلِّ على محمد واهل بيته، الهادين المهديين، العلماء الصادقين، الاوصياء المرضيين، دعائم دينك، وأركان توحيدك، وتراجمة وحيك، وحججك على خلقك، وخلفائك فی أرضك، فهم الذين اخترم لنفسك، واصطفيتهم على عبادك، وارتضيتهم لدينك، وخصصتهم بمعرفتك، وجللتهم بكرامتك، وغذيتهم بحكمتك، وغشيتهم برحمتك، وزينتهم بنعمتك، وألبستهم من نورك ورفعتهم فی ملكوتك، وحففتهم بملائكتك، وشرفتهم بنبيك. اللهم صلِّ على محمد وعليهم صلاة زاكية نامية، كثيرة طيبة دائمة، لا يحيط ا إلا أنت، ولا يسعها إلا علمك، ولا يحصيها أحد غيرك.
اللهم صلِّ على وليك المحيی لسنتك، القائم بأمرك، الداعی إليك، الدليل عليك، وحجتك على خلقك، وخليفتك فی أرضك، وشاهدك على عبادك. اللهم أعز نصره، وامدد فی
عمره، وزين الأرض بطول بقائه، اللهم اكفه بغی الحاسدين، وأعذه من شر الكائدين، وازجر عنه إرادة الظالمين، وخلصه من أيدی الجبارين، اللهم أعطه فی نفسه 👈 وذريته، وشيعته ورعيته، وخاصته وعامته، ومن جميع أهل الدنيا ما تقر به عينه، وتسر به نفسه، وبلغه أفضل أمله فی الدنيا والآخرة إنك على كل شئ قدير).
♦️ترجمه
🔴 (اے اللہ محمد اور ان کی آل پر درود بھیجو، ہدایت یافتہ رہنما (مہدیین)، سچے علماء، اوصیا جن سے اللہ راضی ہے، تیرے دین کے بزرگوں، توحید کی بنیادوں، اور وحی کے مترجموں، اور تیرے مخلوق پر حجت اور زمین میں تیرے جانشین، یہ وہ ہیں جن کو تو نے اپنے لیے منتخب کیا، تو نے انہیں اپنے بندوں پر منتخب کیا، اور تو نے انہیں اپنے دین کے لیے چن لیا، اور تو نے انہیں اپنے علم سے خاص کیا، تو نے انہیں اپنے وقار اور کرامت کیساتھ پالا، تو نے اپنی حکمت سے ان کی پرورش کی اور اپنی رحمت سے ان کو ڈھانپ لیا، اور تو نے انہیں اپنے فضل سے سجایا، اور اپنے نور سے ڈھانپ لیا، اور تو نے انہیں اپنی ملکوت میں اٹھایا، اور تو نے انہیں اپنے فرشتوں سے گھیر لیا۔ اور تو نے اپنے نبی کے ساتھ ان کو شرافت دی۔
اے اللہ، محمد ص اور ان پر ایک ایسی پاکیزہ اور بڑھنے والی اور کثرت اور پاک اور ہمیشہ رہنے والی درود نازل فرما جسے تیرے سوا کوئی نہیں گھیر سکتا۔ اور تیرے علم کے سوا کوئی اسے نہیں گھیرتا اور آپ کے علاوہ کسی نے اسے شمار نہیں کیا۔
اے خدا، اپنے ولی پرجو تیری سنت کو زندہ کرتا ہے درود بھیجو، تیرے حکم پر اٹھنے والا، تیری طرف دعوت دینے والا، تیری طرف رہنمائی کرنے والا، تیری مخلوقات پر حجت اور تیری زمین پر تیرا جانشین، اور تیرے بندوں پر تیرا گواہ، اے اللہ اس کی فتح کو عزت بخش اور اس کی عمر طویل فرما، زمین کو اس کی ساری زندگی کے دورانیہ میں سجائے.
اے اللہ اسے حاسدوں کے ظلم سے بچا، اسے دھوکے بازوں کے شر سے اپنی پناہ میں لے، اور اسے ظالموں کی خواہشات سے روک، اور اسے ظالموں کے ہاتھ سے بچا۔
اے اللہ اس خودکو اور 👈اس کی اولاد کو اور اس کے شیعوں کو اور اس کی رعایا کو اور اس کے خاص و عام لوگوں کو اور تمام دنیا کے لوگوں کو ایسی چیز عطا فرما جس سے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور اسے خوشی ہو اور اس کی دنیا اور آخرت میں اس کی اعلیٰ تمنائیں پوری ہوکہ تو ہر چیز پر قادر ہے)۔
📚 بحار الأنوار: ج 99 ،ص 100 -101.
.
حديث 18
⚫️ القاضی النعمان المغربی، عن النبي اکرم(ص) أنه ذكر المهدي(ع) وما يجريه الله من الخيرات والفتح على يديه. فقيل له: يا رسول الله كل هذا يجمعه الله له ؟
قال: (نعم. و ما لم يكن منه في حياته و أيامه هو كائن في أيام 👈 الأئمة من بعده من ذريته). ♦️
♦️ترجمه
قاضی نعمان مغرب حضور نبی اکرم ص سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ص مہدی علیہ السلام کے بارے میں اور وہ برکتیں اور خیرات اور فتوحات جو اللہ تعالٰی اس کے ہاتھ سے جاری کرتا ہے کہہ رہے تھے۔
عرض کیا گیا یا رسول اللہ کیا خدا ان تمام معاملات ان کے ہاتھوں سے کرتا ہے؟
انہوں نے فرمایا: (ہاں، لیکن یہ سب کچھ ان کی زندگی میں نہیں ہوگا، بلکہ ان کے بعد ان کی 👈اولاد میں سے آنے والے ائمہ کے زمانے میں ہوگا)۔♦️
📚 القاضي النعمان المغربي في شرح الأخبار ج2 ص42.
.
حديث 19
⚫️ ابن قولويه: حدثني أبي ، عن سعد بن عبد االله ، عن أبي عبد الله محمد بن أبي عبد الله الرازي الجاموراني، عن الحسين بن سيف بن عميرة ، عن أبيه سيف ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي
جعفر(ع) قال: قلت له: إي بقاع الأرض أفضل بعد حرم االله وحرم رسوله فقال:
🔰( الكوفة يا أبا بكر، هي الزكية الطاهرة، فيها قبور النبيين المرسلين وغير المرسلين والأوصياء الصادقين، وفيها مسجد سهيل الذي لم يبعث االله نبياً إلا وقد صلى فيه، ومنها يظهر عدل االله، و فيها يكون 👈 قائمه والقوام من بعده♦️
وهي منازل النبيين والأوصياء والصالحين).
♦️ترجمه
ابن قولویہ کہتے ہیں:
میرے والد سے، سعد بن عبداللہ سے، ابو عبداللہ محمد بن ابو عبداللہ رازی جامورانی سے، حسین بن سیف بن عمیرہ سے، اپنے والد سیف سے۔ ابوبکر حضرمی سے،
امام باقر (ع) سے روایت کرتے ہیں، ان سے پوچھا گیا: کون سا مزار، خدا کی حرم سے اور رسول کے مزار سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ حضرت نے فرمایا:
🔰 (کوفہ، اے ابوبکر، وہ سرزمین پاک و پاکیزہ ہے، اور اس میں سچے مرسل اور غیر مرسل انبیاء اور اوصیا کی قبریں ہیں، اور اسی میں مسجد سہیل ہے، جو کہ اللہ تعالی نے کوئی نبی بھیجا ہی نہیں، جو وہاں نماز نہ پڑھا ہو۔ اور یہیں سے خدائی انصاف ظاہر ہوتا ہے۔ اور اس میں
👈 اس کا قائم اور ان کے بعد قائمیں ♦️
ہوں گے، اور وہ انبیاء، اوصياءاور صالحین کا گھر ہے)۔
📚 کامل الزيارات، جعفر بن محمد بن قولويه: ص76.
.
حديث 20
🔰 الشيخ الطوسي بسنده عن المفضل بن عمر، قال: سمعت أبا عبد االله(ع) يقول:
⚫️ (إن لصاحب هذا الأمر غيبتين، إحداهما تطول حتى يقول بعضهم: مات، ويقول بعضهم: قتل، ويقول بعضهم:
ذهب، حتى لا يبقى على أمره من أصحابه إلا نفر يسير لا يطلع على موضعه أحد من ولده ولا غيره،
👈إلا المولى الذي يلي أمره).♦️
♦️ترجمه
شیخ طوسی نے مفضل بن عمر سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:
🔵 اس امر کے مالک (صاحب امر) کے لیے دو غیبت ہیں، جن میں سے ایک اتنی دیر تک رہتی ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ وہ مر گیا، کوئی کہتا ہے کہ وہ مارا گیا، اور کوئی کہتا ہے کہ وہ چلا گیا۔ جب تک کہ اس کے ساتھیوں میں سے کوئی اس کے حکم (امر) پر باقی نہ رہے سوائے چند لوگوں کے، کسی کو اس کے ٹھکانے کی خبر نہیں ہوگی، خواہ اس کی اولاد سے ہو یا دوسروں سے 👈 سوائے اس مولا جو ان کے معاملے کا انچارج ہے۔
📚 غيبت، شيخ طوسی: ص161-162،حديث 120.
.
حديث 21
🔰 عن المفضل، عن أبي عبد الله(ع) قال: قال الله :
⚫️ افترضت على عبادي عشرة فرائض، إذا عرفوها أسكنتهم ملكوتي وأبحتهم جناني.
🔷أولها: معرفتي.
🔷والثانية: معرفة رسولي إلى خلقي، والإقرار به، والتصديق له.
🔷والثالثة: معرفة أوليائي وأم الحجج على خلقي، من والاهم فقد والاني، ومن عاداهم فقد عاداني، وهم العلم فيما بيني وبين خلقي، ومن أنكرهم أصليته [أدخلته] ناري وضاعفت عليه عذابي.
🔷والرابعة: معرفة الأشخاص الذين أقيموا من ضياء قدسي، وهم 👈 قوام قسطي.
🔷والخامسة: معرفة القوام بفضلهم والتصديق لهم.
🔷والسادسة: معرفة عدوي إبليس وما كان من ذاته وأعوانه.
🔷والسابعة: قبول أمري والتصديق لرسلي.
🔷والثامنة: كتمان سري وسر أوليائي.
🔷والتاسعة: تعظيم أهل صفوتي والقبول عنهم والرد إليهم فيما اختلفتم فيه حتى يخرج الشرع
[الشرح] منهم.
🔷والعاشرة: أن يكون هو وأخوه في الدين شرعاً سواء، فإذا كانوا كذلك أدخلتهم ملكوتي وآمنتهم من الفزع الأكبر وكانوا عندي في عليين).
♦️ترجمه
🔰 مفضل سے امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
⚫️ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (میں نے اپنے بندوں پر دس فرائض واجب کیے ہیں کہ اگر وہ انہیں جان لیں تو میں انہیں اپنی ملکوت میں ان کو جگہ دیتا ہوں اور اپنی جنت کو ان کے لیے حلال کروں گا)۔
🔷 پہلا: میرا معرفت (پھچان)
🔷 دوسرا: مخلوق میں میرے رسول کا پھچاننا اور اس کا اقرار اور تصدیق
🔷 تیسرا: میرے اولیاء کا معرفت اور وہ مخلوق پر میری حجت ہیں، جو ان کا دوست ہوا وہ میرا دوست ہے اور جو ان کا دشمن ہوا وہ میرا دشمن ہے۔ وہ میرے اور میری مخلوق کے درمیان بزرگ ہیں، جو ان کو انکار کرے گا، میں اسے جہنم میں داخل کروں گا اور اس کے عذاب میں اضافہ کروں گا۔
🔷 چوتھا: ان لوگوں کا معرفت جو میرے قدسی نور سے اٹھے ہیں اور میرے انصاف کے بانی (انصاف کے قائم) ہیں۔
پانچواں: 👈قائموں کے فضائل کا علم اور ان کی تصدیق
چھٹا: میرے دشمن شیطان کا معرفت اور اس کے ساتھیوں کی فطرت اور ضمیر سے علم رکہنا۔
🔷 ساتواں: میرے حکم کی قبولیت اور میرے رسولوں کی تصدیق
🔷 آٹھواں: میرے اور میرے اولیاء کے سر کو چھپانا اور حفاظت کرنا
🔷 نواں: میرے منتخب لوگوں کی تعظیم کرنا اور ان کو قبول کرنا اور ان کے پاس ہر وہ چیز بھیجنا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی طرف سے راستہ متعین ہو جائے۔
🔷دسواں: وہ اپنے مذہبی بھائی کی طرح زندگی گزارے۔ پس اگر وہ ایسا کریں گے تو میں انہیں اپنی ملکوت میں لاؤں گا اور انہیں بڑے خوف سے محفوظ رکھوں گا۔ اور وہ میرے پاس اعلیٰ مقامات پر ہوں گے)۔
📚 تمحيص، محمد بن همام اسکافی: ص69 ؛بحار الأنوار: ج66 ،ص13 ؛ مستدرک سفينة البحار: ج7 ،ص173_174
.
حديث 22
🔰 الراوندي في قصص الأنبياء، بسنده عن أبي بصير، عن أبي عبد الله(ع) قال: قال لي:
⚫️ يا أبا محمد، كأني أرى نزول القائم(ع) في مسجد السهلة 👈 بأهله وعياله.♦️ قلت: يكون منزله جعلت فداك ؟ قال: نعم، كان فيه منزل إدريس، وكان منزل إبراهيم خليل الرحمن(ع) وما بعث الله نبياً إلا وقد صلى فيه، وفيه مسكن).
♦️ترجمه
راوندی قصص الانبیاء میں ابو بصیر کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:
🔵 (اے محمد، جیسے👈 قائم (ع) کا نزول کو اپنے گھر والے♦️ اور بچوں کے ساتھ مسجد سہلہ میں دیکھ رہا ہوں)
میں نے کہا: میں آپ پر قربان ہوجاوں، کیا ان کا گھر وہاں ہے؟، انہوں نے فرمایا: ہاں، یہ وہ جگہ ہے جہاں ادریس اور ابراہیم خلیل الرحمان (ع) کا گھر ہے، اور اللہ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا سوائے اس کے وہ وہاں نماز پڑھا ہے اور اس میں رہائش گاہ ہے)۔
📚 قصص الأنبيا، راوندی: ص84 ،مزار، مشهدی: ص134،بحار الأنوار: ج52،ص317-376 ؛ مستدرک الوسايل، ميرزای نوری: ج3 ،ص417.
.
حديث 23
🔰 الشيخ الطوسي: الفضل بن شاذان، عن عثمان بن عيسى، عن صالح بن أبي الأسود، عن أبي عبد الله(ع) قال:
⚫️ ذكر مسجد السهلة فقال: (أما إنه منزل صاحبنا إذا قدم 👈 بأهله♦️).
♦️ترجمه
🔰 فضل بن شاذان، عثمان بن عیسیٰ سے، صالح بن ابو اسود سے، امام صادق علیہ السلام سے، نقل کرتے ہیں۔ جنہوں نے مسجد سہلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
🔵 (لیکن وہ ہمارا مالک کا گھر ہے، جب وہ اپنے 👈 گھر والوں کے ساتھ آتا ہے)۔
📚 مصباح، کفعمی: ص692 تصحيح شيخ حسين اعلمی، مؤسسه ی اعلمی، چاپ دوم، 1424هـ.ق
.
حديث 24
🔰 جاء في رواية المفضل بن عمر عن الصادق(ع) في أمر القائم(ع)…) قال المفضل: فما يصنع بأهل مكة ؟
⚫️ قال: يدعوهم بالحكمة والموعظة الحسنة، فيطيعونه ويستخلف فيهم رجلاً من اهلبيته، ويخرج يريد المدينة …).
♦️ترجمه
🔰 مفضل بن عمر ایک روایت میں، امام صادق (ع) سے قائم (ع) کے بارے میں پوچھا:
اے فرزند رسول ص، قائم مکہ والوں کے ساتھ کیا کرے گا؟
🔵 آپ ع نے فرمایا: (وہ انہیں حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ، دعوت دیتا ہے، پھر وہ لوگ ان کی اطاعت کریں گے، اور حضرت اپنے اھل بیت میں سے ایک آدمی کو ان کے درمیان خلیفہ مقرر کرے گا۔ اور وہ خود مدینہ کی طرف روانہ ہوں گے)۔
📚بحار الأنوار: ج53 ،ص11.
.
حديث 25
🔰 امام حسن عسکری علیہ السلام کا قاصد قاسم بن علاء ہمدانی کے پاس آیا اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہمارے مولا حسین بن علی علیہ السلام جمعرات کو ماہ شعبان کے تیسرے دن میں پیدا ہوئے، لہٰذا اس دن روزہ رکھو، اور یہ دعا پڑھیں:
⚫️ اللهم إنی أسألك بحق المولود فی هذا اليوم، الموعود بشهادته قبل استهلاله وولادته، بكته السماء ومن فيها والأرض ومن عليها، ولما يطأ لابتيها، قتيل العبرة، وسيد الأسرة، الممدود بالنصرة يوم الكرة، المعوض من قتله أنّ الأئمة من نسله، والشفاء فی تربته، والفوز معه فی أوبته،
👈 والاوصياء من عترته بعد قائمهم♦️ وغيبته، حتى يدركوا الأوتار، ويثأروا الثار، ويرضوا الجبار، ويكونوا خير أنصار، صلى الله عليهم مع اختلاف الليل والنهار… واجعلنا ممن يسلم لأمره، ويكثر الصلاة عليه عند ذكره 👈 وعلى جميع اوصيائه♦️ وأهل أصفيائه الممدودين منك 👈 بالعدد الاثنی عشر النجوم الزهر والحجج على جميع البشر…).♦️
♦️ترجمه
🔵(خدا، اس دن کے مولود کے حق میں، جس کی شهادت کا وعدہ اس کی پیدائش سے پہلے کیا گیا تھا کہ آسمان اور اس میں جو کچھ ہے اور زمین اور جو کچھ اس پر ہے اس پر رویا۔آنسوؤں کا مقتول اور خاندان کا سرور ، جس کو واپسی کے دن دائمی فتح ملے گی،اس کے قتل کے بدلہ، امامت ان کی نسل سے ہیں، اور شفا اس کی مٹی میں ہے، اور اس کے واپسی میں نجات اس کے ساتھ ہوگی،
اور ان کی خاندان میں سے اوصیاء 👈 ان کے قائم اور اس کی غیبت کے بعد میں♦️ ہوں گے۔
اس وقت تک کہ وہ کمانیں اٹھائیں گے اور انتقام کے لیے جائیں گے اور اللہ جبار کو راضی کریں گے اور بہترین اصحاب بنیں گے، دن رات کی گردش میں اللہ کی درود ان پر ہو… اور ہمیں اس کے حکم کے تابع کرنے والوں میں شامل فرما اور جب اسے یاد کرتے ہیں تو اس پر اور 👈 اس کے تمام اوصيا پر♦️ اور اس کے پاکیزہ لوگوں جو آپ سے پھیلے ہیں پر کثرت سے سلام بھیجنا۔
👈 کہ آپ نے انہیں بارہ روشن ستاروں میں شمار کیا ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک حجت ہے…)♦️
📚 مصباح متهجد: ص۸۲۶ ،مختصر بصائر الدرجات: ص۳۴ و ۳۵ ،مزار، مشهدی: ص۳۹۷ و ۳۹۸ ،إقبال
.
حدیث 26
🔰 شیخ علی یزدی حائری الزام الناصب میں کہتے ہیں: سید ثقه جلیل فقیہ نعمت اللہ جزائری نے اپنی بعض تالیفات میں امیر المومنین (ع) کی ایک طویل حدیث میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے ابن عباس سے فرمایا:
(پوچھو اور جواب سنو گے)۔ اس نے کہا: (اے امیر المومنین، مجھے رب کے وہ الفاظ بتائیے کہ فرمایا: (ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا))
اس نے کہا: (ہاں، بھیس، تم میرے علاوہ کسی اور سے پوچھتے!)۔
فرمایا: (ان کو کوئی علم نہیں، یہ ایک علم ہے جسے صرف نبی اور وصی ہی جانتے ہیں)۔
آپ ع نے فرمایا: (ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا، یہ دنیا پر نور کا نزول ہے)۔
فرمایا: (کیسے؟)
فرمایا: (جب خدا عرش پر آیا تو اس نے چاہا کہ ہمارے نور سے نور چمکے، اور ہمارا نور اس کے نور سے تھا، چنانچہ خدا نے نور کو بولنے کا حکم دیا، اور نور نے بھی عرش کے گرد کلام کیا۔
تو فرشتوں نے اسے سنا اور وہ ہمارے نورانی کلام کی مٹھاس کے آگے سجدہ ریز ہو گئے۔
اور اس کا نام اس طرح قدر رکھا گیا ہے اور یہ ہمارے لیے اور ہمارے چاہنے والوں کے لیے ہے اور اس میں ہمارے سوا کسی کا حصہ نہیں ہے۔
ہمارے نور عرش الهی میں بڑھتا اور چمک رہا تھا اور فرشتے ہر وقت ہم پر سلام بھیج رہے تھے۔
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اس نے اپنا سر اٹھایا اور ہمارے نور کی طرف دیکھا اور کہا: اے میرے خدا، میرے رب، تیرے عرش کے نیچے ان کا نور کب سے ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم چوبیس ہزار سال اس سے پہلے کہ میں تمہیں اور آسمانوں، زمینوں، پہاڑوں، سمندروں، جنت اور جہنم کو پیدا کروں اور تم بھی ان کی کچھ روشنیوں میں ہو۔ چنانچہ جب آدم زمین پر اترے تو دنیا تاریک تھی۔
تو آدم نے کہا: اپنے رب کے حکم سے۔
(کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کون سی اجازت ہے؟)
فرمایا: (نہیں)۔
فرمایا: (خدا نے جبرائیل کے ذریعے یہ وحی کی کہ: پروردگار، محمد اور علی کی حق میں،ایسا نہ ہو کہ تم میری طرف نور واپس نہ کر دو ، تو خدائے بزرگ و برتر نے اسے دنیا میں بھیجا اور آدم ہمارے نور سے منور ہو گئے اور اس طرح اسے (اس رات کو) شب قدر کہا گیا۔
اور جب آدم علیہ السلام دنیا میں چار سو سال رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نور کا ایک تابوت نازل فرمایا جس کے بارہ دروازے تھے۔
🔴 ہر دروازے کے لیے قائم کی طرف سے ایک وصی تھا، جنہوں نے نبیوں جیسا سلوک کیا۔
آدم نے کہا: خدا، یہ کون ہیں؟
آپ نے فرمایا: اے آدم تم سب سے پہلے نبی ہو، دوسرے نوح، تیسرے ابراہیم، چوتھے موسیٰ، پانچویں عیسیٰ اور چھٹے محمد خاتم الانبیاء ہیں۔ .
اور ان کے اوصياء میں سے پہلا آپ کا بیٹا شيث ہے اور دوسرا سام بن نوح اور تیسرا اسماعیل بن ابراہیم اور چوتھا یوشع بن نون اور پانچواں شمعون صفا اور چھٹا علی بن ابی طالب اور ان میں سے آخری قائم، محمد کا بیٹا ہے جس کے ذریعے میں اپنا دین ظاہر کرتا ہوں۔
اور میں اسے تمام مذاہب پر غالب کروں گا۔
اگر چہ مشرک بھی ہچکچاتے ہیں۔
پھر آدم نے تابوت شيث کے حوالے کر دیئے اور وفات پاگئے۔
یہ اس طرح تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے۔* اور تمہیں کیسے معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟* شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے)۔
اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا نور زمین پر اتارا، تاکہ ان کے ذریعہ سے اہل ایمان روشن ہو جائیں اور کافر اندھے ہو جائیں۔
اور جہاں تک رب کا فرمان ہے: (فرشتے اترتے ہیں)۔ جب اللہ تعالیٰ نے محمد (ص) کو رسول بنایا تو ایک سفید تابوت ان کے ساتھ تھا جس میں بارہ دروازے تھے اور اس میں سفید لفافے تھے جن میں بارہ لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے، چنانچہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اور معاملہ ان کے رب کی طرف تھا کہ حق ان کے لیے ہے اور وہ نور ہیں)۔
اس نے کہا: (اے امیر المومنین یہ کون ہیں؟)
فرمایا: (میں اور میرے بیٹےحسن، حسین، علی ابن حسین، محمد ابن علی، جعفر ابن محمد، موسیٰ ابن جعفر، علی ابن موسی، محمد ابن علی، علی ابن محمد، حسن ابن علی، اور محمد ابن حسن صاحب الزمان ان سب پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں۔
🔴 ان کے بعد 👈 ہمارے پیروکار اور شیعہ ہیں♦️ جو ہماری ولايت کو تسلیم کرتے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی ولايت کا انکار کرتے ہیں۔
اور خدا کا فرمان ہے: (ہر معاملہ سے سلامتی ہے)۔
ہر وہ شخص جو آسمانوں اور زمین پر تھا، ہر صبح و شام، قیامت تک، ہمارے نور سے روشن ہوگيا۔
یہ میری اولاد کا نور ہے جو ہمارے ذریعے سے طلوع فجر اور قیامت تک دنیا کو روشن کرے گا۔
📚 إلزام الناصب فی إثبات الحجة الغايب، شيخ علی يزدی حائری: ج1 ،ص100-101.
.
حديث 27
🔰 العلامة المجلسي قال: أقول وجدت في أدعية عرفة من كتاب الإقبال زيارة جامعة للبعيد مروية عن الصادق(ع) ينبغي زيارتهم بها في كل يوم (وفيه يقول …) :
⚫️ (السلام عليك يا مولاي يا حجة بن الحسن صاحب الزمان صلى الله عليك
👈وعلى عترتك الطاهرة الطيبة ♦️
يا موالي، كونوا شفعائي في حط وزري وخطاياي، آمنت باالله وبما أنزل إليكم، وأتوالى آخركم بما أتوالى أولكم،
وبرئت من الجبت والطاغوت واللات والعزى. يا موالي، أنا سلم لمن سالمكم وحرب لمن حاربكم وعدو لمن عاداكم و ولي لمن والاكم إلى يوم القيامة، ولعن الله ظالميكم وغاصبيكم، ولعن الله
أشياعهم وأتباعهم وأهل مذهبهم، وأبرأ إلى الله وإليكم منهم).
♦️ترجمه
🔰 علامہ مجلسی فرماتے ہیں: عرفہ کے دن کی دعاؤں میں, کتاب (اقبال) میں دور سے زيارت جامعه پڑھنے کے بارے میں، جسے امام صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے، میں نے پایا کہ یہ زیارت ان کی روزانہ کی زیارت کے لائق ہے:
🔵 (…سلام ہو آپ پر، میرے آقا، اے حجت بن الحسن صاحب الزمان، آپ پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں
👈اور آپ کی پاک عترت پر سلامتی ہو۔♦️
اے میرے مولائیں جب میرے گناہوں اور خطاؤں کا بوجھ گر جائے تو میرا سفارشی بن جائيے۔ میں خدا پر اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتا ہوں، اور میں آپ کے آخری کی پیروی کرتا ہوں، بالکل اسی طرح کہ میں آپ میں سے پہلے کی پیروی کروں۔
اور میںجبت، طاغوت، لات اور عزی سے برائت کرتاہوں۔ اے میرے مولائیں ، میں اس سے صلح میں ہوں جو آپ سے صلح میں ہے اور میں اس سے جنگ میں ہوں جو آپ سے لڑتا ہے اور میں اس کا دشمن ہوں جو آپ کا دشمن ہے اور میں اس کا محب ہوں جو آپ کا محب ہے، قیامت تک۔ خدا ظالموں اور تمہارے حقوق غصب کرنے والوں پر لعنت کرے اور خدا ان کے تمام پیروکاروں، مددگاروں اور ان کے مذہب والوں پر لعنت کرے اور ہم ان سے خدا اور تمہاری پناہ چاہتے ہیں)۔
📚 بحار الأنوار: ج98 ،ص375 ،مستدرک الوسائل: ج10،ص369-371 ،ح 12200 ،جامع أحاديث الشيعة: ج12 ،ص294-295.
.
حديث 28
🔰 سید ابن طاووس کہتے ہیں: جمعہ کا دن صاحب الزمان (ع) کے نام سے منسوب ہے اور یہ وہ دن ہے جس دن آنحضرت کا ظہور ہوگا میرے پاس ایک نظم ہے جس میں ان کی محبت کا ذکر ہے۔:
میں تم سے پیار کرتا ہوں
میری زندگی بھی ختم ہو جائے تو
ہم آپ کے زائر ہیں۔
چاہے میرا سواری مارا جائے۔
🔵 (سلام ہو تجھ پر اے زمین پر خدا کے حجت، سلامتی ہو تجھ پر، اے مخلوق کے در مياں خدا کی آنکھ،
سلام ہو تجھ پر اے نور الٰہی جس سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں۔ اور مومنوں کے لیے یہ راحت اور کشادگی کا باعث ہے۔
تم پر سلامتی ہو تم جو خوف سے پاک ہو گئے ہو۔ سلام ہو تجھ پر اے مہربان دوست، سلامتی ہو تجھ پر، اے نجات کی کشتی، سلامتی ہو تجھ پر، اے چشمہ حیات، سلامتی ہو تجھ پر، خدا کی رحمتیں ہو تجھ پر۔
👈 اور سلام آپ کے پاک اہل بیت پر♦️
آپ کو سلام۔ خدا اس وعدہ کو جلد پورا کرے جو اس نے فتح اور ظہور کے بارے میں آپ سے کیا تھا۔
آپ پر سلام ہو، میرے آقا، میں آپ کا بندہ ہوں، جو آپ کے اول و آخر کی معرفت رکھتا ہے، اور آپ اور آپ کے اھل بیت کے ذریعے ہم خدا کا قرب چاہتے ہیں۔ میں تیرے ظہور اور تیرے ذریعہ حق کے ظہور کا انتظار کر رہا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ محمد اور ان کی آل پر رحمتیں نازل فرمائے اور مجھے تیرا انتظار کرنے والوں میں اور تیرے پیروکاروں اور دشمنوں کے مقابلے میں مددگار بنا دے اور مجھے اپنے سامنے جان نچاور کرنے والوں میں سے شامل کردے۔ اے میرے آقا، اے وقت کے مالک، آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔
👈 اور آپ کے اہل بیت پر سلام ہو۔♦️
آج جمعہ ہے اور یہ آپ کا دن ہے، آپ کے ظہور اور مومنین کے لیے کھلنے کا انتظار ہے اور کافروں کا قتل اس دن تلوار سے ہو گا۔
اور میں، میرے آقا، آپ کا مہمان ہوں اور میں نے تیری پناہ لی ہے۔ اور آپ، میرے آقا، سخی ہیں اور اہل کرم کی اولاد میں سے ہیں، اور آپ مہمان نوازی اور پناہ کے ذمہ دار ہیں۔ تو مجھے اپنا مہمان بنا لے اور اپنی بارگاہ میں پناہ دے، آپ پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں۔
👈 اور سلام آپ کے پاک اہل بیت پر)♦️
📚 جمال الأسبوع: ص41-42 ؛ بحار الأنوار: ج99، ص215-216.
.
حديث 29
🔰 السيوطي في العرف الوردي بالسند عن سالم بن أبي الجعد ، قال:
⚫️ (يكون المهدي إحدى وعشرين سنة, أو اثنين وعشرين سنة،
🔴 ثم يكون آخر من بعده وهو صالح أربع عشرة سنة،
♦️ ثم يكون آخر من بعده وهو صالح تسع سنين).
♦️ترجمه
⚫️ (مہدی اکیس یا بائیس سال حکومت کریں گے،
🔴پھر اس کے بعد ایک قابل شخص ہے جو چودہ سال حکومت کرے گا۔
♦️ اور پھر اس کے بعد ایک اور قابل شخص ہے جو نو سال تک حکومت کرتا ہے۔
📚 العرف الوردی فی أخبار المهدی ، سيوطی: حديث 251.
.
حديث 30
🔰 الشيخ الطوسي في الغيبة: الفضل بن شاذان، عن إسماعيل بن عياش، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن حذيفة بن اليمان، قال: سمعت رسول االله وذكر المهدي، فقال:
🔵 (إنه يبايع بين الركن والمقام، اسمه أحمد وعبد االله والمهدي، فهذه أسماؤه ثلاثتها).
♦️ترجمه
🔰 فضل بن شازان نے اسماعیل بن عیاش سے، اعمش کی سند سے، ابی وائل کی سند سے، حذیفہ بن یمان سے روایت کی ہے۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آله و سلم سے سنا ہے کہ آپ نے مہدی کے ذکر میں فرمایا:
🔴 (درحقیقت رکن اور مقام کے درمیان بیعت اس شخص سے کی جاتی ہے جس کے تین نام ہوں: احمد، عبداللہ اور مہدی، یہ اس کے تین نام ہیں)۔
📚 غيبت شيخ طوسی: ص470 اور 454.
.
حديث 31
نعيم بن حماد المروزي، بسنده عن امير المؤمنين(ع)،أنه قال:
⚫️ ( إذا بعث السفياني إلى المهدي جيشاً فخسف بهم بالبيداء وبلغ ذلك أهل الشام، قالوا لخليفتهم: قد خرج المهدي فبايعه وادخل في طاعته وإلا قتلناك، فيرسل إليه بالبيعة، ويسير المهدي حتى ينزل بيت المقدس، وتنقل إليه الخزائن، وتدخل العرب والعجم وأهل الحرب والروم وغيرهم في طاعته من غير قتال، حتى تبنى المساجد بالقسطنطينية وما دونها،
👈 ويخرج قبله رجل من اهل بيته♦️
بأهل المشرق، يحمل السيف على عاتقه ثمانية أشهر، يقتل ويمثل، ويتوجه إلى بيت المقدس. فلا يبلغه حتى يموت).
♦️ترجمه
⚫️(جب سفیانی مہدی کی طرف لشکر بھیجتا ہے تو وہ بیداہ کی سرزمین میں زمین میں دھنستا ہے اور اس واقعہ کی خبر اہل شام تک پہنچتی ہے تو وہ اپنے حاکم سے کہتے ہیں:
مہدی کا ظہور ہو چکا ہے، لہٰذا اس کی بیعت کرو اور اس کی پیروی کرو، ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے پاس کسی کو بیعت کے لیے بھیجتا ہے اور مہدی بیت المقدس پہنچنے تک چلا جاتا ہے۔ اور خزانوں پر قبضہ کرے گا، اور عرب، عجم، حرب اور روم والے اور دوسرے لوگ بغیر جنگ کے اس کی اطاعت کریں گے، یہاں تک کہ قسطنطنیہ (استنبول) اور اس کے نیچے مساجد تعمیر ہوجائیں گے۔
👈اور ان سے پہلے ان کے اہل بیت کا ایک مرد♦️
وہ مشرق سے خروج کرے گا، جو آٹھ مہینے تک اپنی پیٹھ پر تلوار اٹھائے گآ، قتل اور مسخ کرے گآ، اور یروشلم جائے گا۔ تو اس تک نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ وفات نہ پائے)۔
📚 الفتن، نعيم بن حماد: ص216 ؛ الملاحم والفتن، ابن طاووس: ص136 ؛ کنز العمال: ج14، ص589 ، حديث 39669 ؛ شرح احقاق الحق، سيد مرعشی: ج13 ،ص313 ؛ معجم احاديث امام مهدی(ع):ج3 ،ص119.
.
حديث 32
🔰 الشيخ الطوسي في كتاب الغيبة: الفضل بن شاذان، عن الحسن بن محبوب، عن عمرو بن أبي المقدام، عن جابر الجعفي، قال:
⚫️ (سمعت أبا جعفر(ع) يقول: والله ليملكن
👈منا أهل البيت رجل♦️
بعد موته ثلاثمائة سنة يزداد تسعاً. قلت: متى يكون ذلك ؟ قال:
👈 بعد القائم(ع).♦️
قلت: وكم يقوم القائم في عالمه ؟ قال: تسع عشرة سنة ثم يخرج المنتصر فيطلب بدم الحسين(ع) ودماء أصحابه، فيقتل ويسبي حتى يخرج السفاح).
♦️ترجمه
🔰 شیخ طوسی کتاب الغیبہ میں بیان کرتے ہیں:
فضل بن شازان، حسن بن محبوب کی سند سے، عمرو بن ابی قدام کی سند سے، جابر جعفی کی سند سے، اس طرح روایت کرتے ہیں:
⚫️میں نے ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: (خدا کی قسم،
👈 ہم اہل بیت (ع) میں سے ایک آدمی ♦️
تین سو نو سال حکومت کرتا ہے)۔
میں نے کہا: (وہ کب ہوگا؟) انہوں نے فرمایا:
👈 (قائم کے بعد) ♦️
میں نے کہا: (قائم کتنی حکومت کرتا ہے؟)
فرمایا: (انیس سال)۔
پھر منتصر حسین کے خون کا بدلہ لینے قیام کرے گا۔
اور وہ مارتا اور قید کرتاہے، جب تک سفاح نہ اٹھ جائے۔
📚 غيبت، شيخ طوسی، ص478-479.
.
حديث 33
🔰 الشيخ المفيد: الفضل بن شاذان ، عن معمر بن خلاد ، عن أبي الحسن(ع) قال:
⚫️ (كأني برايات من مصر مقبلات خضر مصبغات، حتى تأتي الشامات فتهدى إلى
👈 ابن صاحب الوصيات).♦️
♦️ ترجمه
🔰 شیخ مفید نے فضل بن شاذان سے، معمر بن خلاد سے، ابوالحسن سے، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت کی ہے۔
کہ انہوں نے فرمایا:
⚫️ (گویا میں سبز جھنڈے دیکھ رہا ہوں، جو مصر سے اٹھائے گئے ہیں، کہ شامات تک پہنچ جائے، یہاں تک کہ
👈 وصیت کے مالک کے بیٹے ♦️
کی طرف پہنچ جائےگآ)۔
📚 ارشاد، شيخ مفيد: ج2 ،ص376.
.
حديث 34
🔰 قصة الجزيرة الخضراء: وهي الجزيرة التي يعيش فيها
👈 أولاد الإمام المهدي(ع)♦️
وشيعتهم، وخبر هذه الجزيرة طويل قد رواه واعتبره عدة علماء ، وهذه القصة
👈 تثبت الذرية للإمام المهدي(ع)♦️
في فترة الغيبة الكبرى، وأن لهم مدينة بل مدن عديدة.
قال السيد ابن طاووس عن هذه القصة:
⚫️ (و وجدت رواية متصلة الإسناد بأن للمهدي صلوات الله عليه
👈 أولاد جماعة ولاة♦️
في أطراف بلاد البحار على غاية عظيمة من صفات الأبرار).
♦️ترجمه:
🔰 جزیرے خضراء کی کہانی: وہ جزیرہ جہاں
👈 امام مہدی علیہ السلام کی اولاد♦️
اور ان کے شیعہ اس میں رہتے ہیں اور اس جزیرے کی کہانی طویل ہے۔
جسے بہت سے علماء نے نقل کیا ہے
اور یہ قصہ بھی غیبت کبری میں
👈امام مہدی علیہ السلام کی اولاد کو ثابت کرتا ہے۔♦️
اور یہ کہ ان کے شہر یا بہت سے شہر ہیں۔
اس قصے کے بارے میں سید بن طاووس کہتے ہیں:
⚫️ (مجھے منسلک دستاویزات کے ساتھ ایک روایت ملی کہ امام مہدی علیہ السلام) کے
👈 اولاد اور حکمرانوں♦️
سمندری زمینیں کے ارد گرد موجود ہیں۔
جو کہ نہایت عظمت {نیک صفات} کے حامل ہیں)۔.
📚 جمال الأسبوع، سيد بن طاووس: ص۳۱۰.
.
حديث 35
🔰 جابر بن يزيد الجعفي، قال: قال أبو جعفر محمد بن علي الباقر(ع) عن قيام القائم(ع) بين الركن والمقام :
⚫️ (… ألا فمن حاجني في كتاب الله فأنا أولى الناس بكتاب الله، ألا ومن حاجني في سنة رسول الله فأنا أولى الناس بسنة رسول الله، فأنشد الله من سمع كلامي اليوم لما أبلغ الشاهد منكم الغائب، وأسألكم بحق الله وبحق رسوله وبحقي، فإن لي عليكم حق القربى من رسول الله إلا أعنتمونا ومنعتمونا ممن يظلمنا فقد أخفنا وظلمنا وطردنا من ديارنا و ♦️أبنائنا♦️ وبغي علينا ودفعنا عن حقنا وافترى أهل الباطل علينا، فالله الله فينا لا تخذلونا وانصرونا
ينصركم الله تعالى).
♦️ترجمه
🔰جابر بن یزید جعفی، ابو جعفر محمد بن علی باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:کہ رکن اور مقام کے درمیاں قائم کے قیام کے بارے میں آپ نے فرمایا:
⚫️ (… آگاہ رہو، جو کوئی مجھ سے خدا کی کتاب کے بارے میں احتجاج کرے، میں خدا کی کتاب کے قریب ترین لوگ ہوں؛
اور جو شخص رسول اللہ ص کی سنت کے بارے میں مجھ سے احتجاج کرے گا۔ میں رسول اللہ ص کی سنت کے قریب ترین لوگ ہوں۔
اور خدا اس سے پوچھے گا جو آج میری باتیں سنے گا۔ پھر جو حاضر ہیں وہ میری بات غیر حاضر تک پہنچا دیں۔ اور بے شک میرا تم پر رسول خدا کے رشتہ داروں کا حق ہے لیکن تم نے ہمارے ساتھ دشمنی کے سوا کچھ نہیں کیا اور ہمیں ان لوگوں سے منع کیا جنہوں نے ہم پر ظلم کیا۔
اس لیے انہوں نے ہمیں ہلکا سمجھا اور ہم پر ظلم کیا اور ہمیں وطن سے نکال دیا اور
👈ہمارے اولاد سے ♦️ دور کیا
اور انہوں نے ہم پر ظلم کی انتہا کر دی ہے اور ہم سے ہمارا حق چھین لیا ہے اور جھوٹے لوگوں نے ہم پر بہتان لگایا ہے۔ تو پھر خدا کے لیے ، خدا کے لیے، ہمارے حق کے لیے ، ہمیں اکیلا نہ چھوڑو اور ہماری مدد کرو، تاکہ خدا تمہاری مدد کرے)۔
📚 غيبت، نعمانی: ص 288- 290.
.
حديث 36
🔰 سليم بن قيس الهلالي، عن سلمان الفارسي في حديث طويل، عن رسول الله(ص)
فقال رسول الله(ص):
⚫️ أخي علي أفضل أمتي، وحمزة وجعفر هذان أفضل أمتي بعد علي وبعدك وبعد ابني وسبطي الحسن والحسين وبعد الأوصياء من ولد ابني هذا – وأشار رسول الله بيده إلى الحسين منهم المهدي.
👈 والذي قبله أفضل منه ♦️
👈 الأول خير من الآخر ♦️
👈 أنه إمامه والآخروصی الأول ♦️
إنا اهلبيت اختار الله لنا الآخرة على الدنيا…).
♦️ترجمه
🔰سلیم بن قیس ہلالی، سلمان فارسی سے، ایک طویل حدیث میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
⚫️ (میرے بھائی علی میری امت میں سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور حمزہ اور جعفر میری امت میں علی کے بعد اور آپ کے بعد اور میری اولاد حسن و حسین کے بعد اور میرے اس فرزند -رسول اللہ ص نے اپنے ہاتھ سے حسین علی السلام کی طرف اشارہ کیا- کے اوصياء کے بعد سب سے زیادہ نیک ہیں جو کہ مہدی ان میں سے ایک ہے۔
👈اور جو اس سے پہلے ہے وہ اس سے بہتر ہے، پہلا ، آخر والا سے بہتر ہے۔♦️
👈 کیونکہ وہ امام ہے ♦️
👈 اور آخری پہلا والا کا وصی ہے♦️
ہم وہ اہل بیت ہیں جو خدا نے ہمارے لیے دنیا پر آخرت کا انتخاب کیا۔…)
📚 کتاب سلیم بن قیس، محمد باقر انصاری کی تحقیق: صفحہ 132-134۔
⚠️ وضاحت:
یہ ظاہری شکل میں؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے والد امام مہدی علیہ السلام سے افضل ہیں، جب کہ بہت سی روایات میں امام مہدی علیہ السلام کی امام حسن عسکری علیہ السلام پر فضیلت بیان کی گئی ہے۔
اور یہاں پر مراد مہدی اول کا امام محمد بن الحسن عسکری علیہ السلام سے تعلق ہے۔
.
حديث 37
🔰 سليم بن قيس: عن سلمان المحمدي، عن رسول الله(ص) في حديث طويل:
⚫️ (… ثم ضرب بيده على الحسين(ع) فقال: يا سلمان، مهدي أمتي الذي يملأ الأرض قسطاً وعدلاً كما ملئت جوراً وظلماً من ولد هذا. إمام بن إمام، عالم بن عالم، وصي بن وصي،
👈 أبوه الذي يليه إمام وصي عالم.♦️
قال: قلت: يا نبي الله، المهدي أفضل أم أبوه ؟ قال: 👈 أبوه أفضل منه.🔻
للأول مثل أجورهم كلهم؛
لأن الله هداهم به …).
♦️ترجمه
🔰 سلیم بن قیس، سلمان محمدی کی سند سے، ایک طویل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ:
⚫️ (…حضرت نے حسین علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا:
(اے سلمان، میری امت کے مہدی، جو زمین کو عدل اور امن سے بھر دیتا ہے، جبر سے بھرا ہونے کے بعد یہ اس کا بیٹا ہے۔ امام، امام کا بیٹا ہے، عالم عالم کا بیٹا ہے، وصی وصی کا بیٹا ہے،
👈ان کے والد وہ ہیں جو ان کے بعد ہیں امام وصی عالم)
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، مہدی افضل ہیں یا ان کے والد؟
👈(اس کا والد اس سے افضل ہے۔ ♦️
پہلے والا کے لیے ان سب کی طرح اجر و ثواب ہے۔
کیونکہ خدا نے اس کے ذریعے ان کی رہنمائی کی)۔
📚 کتاب سلیم بن قیس، محمد باقر انصاری کی تحقیق: ص 429۔
⚠️ اس حدیث میں مہدی سے مراد امام محمد حجت بن الحسن علیہ السلام نہیں ہیں۔ کیونکہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: (ان کے والد وہ ہیں جو ان کے بعد ہیں، امام وصی عالم)۔
قدرتی طور پر، کوئی باپ نہیں ہے جو اپنے بیٹے کے بعد وجود میں آجائے تو پھر صورت حال صرف یہ ہے کہ اس کا باپ ظہور کے معاملے میں اس کے بعد ہو۔جیسا کہ امام مہدی (ع) اور ان کے جانشین احمد (ع) کے معاملے میں ہے۔
اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی اول اپنے والد امام حجت بن الحسن (علیہ السلام) سے پہلے ظاہر ہوں گے۔
لہٰذا مہدی جس کے والد ان کے بعد ہیں وہ پہلا مہدی ہے جو امام مہدی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔
.
حديث 38
🔰 الشيخ الطوسي: محمد بن عبد الله بن جعفر الحميري، عن أبيه، عن علي بن سليمان بن رشيد، عن الحسن بن علي الخزاز، قال:
⚫️ (دخل علي بن أبي حمزة على أبي الحسن الرضا(ع)فقال له: أنت إمام؟ قال:نعم، فقال له: إني سمعت جدك جعفر بن محمد(ع) يقول: لا يكون الإمام إلا وله عقب. فقال: أنسيت يا شيخ أو تناسيت؟ ليس هكذا قال جعفر(ع)، إنما قال جعفر(ع): لا يكون الإمام
👈إلا وله عقب♦️
إلا الإمام الذي يخرج عليه الحسين بن علي (ع) فإنه لا عقب له، فقال له: صدقت جعلت فداك هكذا سمعت جدك يقول).
♦️ترجمه
🔰 محمد بن عبداللہ بن جعفر حمیری، اپنے والد سے، علی بن سلیمان بن رشید سے، وہ حسن بن علی خزاز سے روایت کرتے ہیں۔
علی بن ابی حمزہ امام ابوالحسن رضا علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا:
⚫️ (کیا آپ امام ہیں؟) فرمایا: (ہاں)۔ انہوں نے کہا: (لیکن میں نے آپ کے دادا جعفر بن محمد (ع) سے سنا ہے، انہوں نے فرمایا: کوئی امام نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا بیٹا نہ ہو)۔ حضرت نے فرمایا: (اے شیخ! کیا تم بھول گئے ہو یا بھلا رہے ہو؟ ایسا نہیں تھا، جعفر ع نے کہا: کوئی امام نہیں ہے،
👈 مگر یہ کہ اس کا بیٹا ہو، ♦️
سوائے اس امام کے جس کے دور میں حسین بن علی (ع) خروج کرےگا، کیونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں)۔ اس نے کہا: (آپ ٹھیک فرمارہے ہیں، میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ میں نے سنا ہے کہ آپ کے جد نے ایسا ہی فرمایا)۔
📚 غیبت، شیخ طوسی: ص224۔
⚠️ یہ روایت واضح طور پر اعلان کرتی ہے کہ وہ امام جس کے بعد رجعت شروع ہوتی ہے،ایسا امام ہے جس کی کوئی اولاد اور ذریت نہیں۔جبکہ امام مہدی علیہ السلام کے بعد ان کے حجتیں اور امام اولاد ہیں۔ پس وہ امام جس کے بعد رجعت شروع ہوتی ہے۔ یہ امام مہدی محمد بن حسن عسکری علیہ السلام نہیں ہو سکتے، اور چونکہ امام مہدی علیہ السلام کے بعد لقب (امام) ان کی اولاد میں سے مہدیین کے علاوہ کسی اور پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ امام حضرت امام مہدی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور چونکہ آخری مہدی، بارہویں مہدی ہے۔ چونکہ رسول خدا (ص) اور ائمہ (ع) نے فرمایا کہ مہدیین کی حکومت امام مہدی (ع) کے بعد ہوگی، اس کے بعد حسین بن علی (ع) کی بارہویں مہدی پر رجعت ۔جس کے بعد کوئی اولاد نہ ہو- شروع ہوگي۔
لہٰذا یہ روایت مکمل طور پر اس بات پر قائل ہے کہ رجعت شروع نہیں ہوگی، سوائے امام مہدی علیہ السلام کی اولاد میں سے بارہ مہدیوں کی حکومت کے بعد جو ان کے والد کے بعد امام کے طور پر وصف کیے گئے ہیں۔⚠️
.
حديث 39
⚫️ رسول اللہ ص نے ایک طویل حدیث میں فرمایا: (… جب جبرائیل علیہ السلام مجھے آسمان پر لے گئے تو انھوں نے دو دو کر کے اذان دی۔ اور دو دو کر کے اقامت کہی، پھر فرمایا: اے محمد ص آگے کھڑے ہو جاؤ۔
میں نے کہا: اے جبرائیل کیا میں آپ سے آگے کھڑا رہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو تمام فرشتوں پر فضیلت دی ہے اور آپ کو ایک خاص فضیلت دی ہے۔ تو میں آگے کھڑا ہو گیا اور بغیر فخر کیے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ چنانچہ جب ہم نور کے پردوں میں پہنچے تو جبرائیل نے مجھ سے کہا: اے محمد! آگے بڑھو اور مجھ سے الگ ہو جاؤ۔
میں نے کہا: جبرائیل کیا آپ اس منزل پرمجھے چھوڑ دیں گے؟
اس نے کہا: اے محمد، یہ میری آخری حد ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اس جگہ میرے لیے مقرر کی ہے، اور اگر میں اپنی حد سے تجاوز کروں گا تو میرے رب کی حدود سے تجاوز کرنے کی وجہ سے میرے پر جل جائیں گے۔ پھر روشنی کے ایک ہالہ نے مجھے گھیر لیا اور جہاں تک خدا نے چاہا مجھے ملکوت تک لے گیا۔ تو میرے پاس آواز آئی: اے محمد، میں نے کہا: لبيک اے میرے رب۔ تم نے مجھے خوش کیا، آپ بابرکت اور برگزیدہ ہیں۔ آواز آئی: اے محمد، آپ میرے بندے ہیں اور میں آپ کا رب ہوں۔ تو میری بندگی کرو اور مجھ پر بھروسہ کرو۔ پھر تو میرے بندوں میں میرا نور ہے اور میری مخلوق کے لیے میرا رسول اور میری امت کے لیے میرا حجت ہے۔ پس میں نے اپنی جنت کو تیرے پیروکاروں کے لیے اور اپنی آگ کو تیرے خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے پیدا کی ہے، اور میں نے اپنی عزت کو تیرے اوصياء کے لیے واجب کیا، اور میں نے تیرے شیعوں کے لیے اپنے اجر کو واجب کیا۔ میں نے کہا: اے میرے رب، میرے اوصياء کون ہیں؟ پکار آئی اے محمد ساق عرش پر تیرے اوصياء کا نام لکھا ہوا ہے۔
چنانچہ میں نے اپنے رب کے محضر میں ساق عرش کی طرف دیکھا تو مجھے بارہ نور نظر آئے، ہر نور میں میرے ہر وصی کا نام سبز رسم الخط میں لکھا ہوا تھا، ان میں سے پہلے علی بن ابی طالب اور آخری میری امت کے مہدی تھے۔ پھر میں نے کہا: پروردگارا، کیا یہ میرے بعد اوصياء ہیں؟ آواز آئی: اے محمد یہ میرے ولی، میرے دوست، میرے برگزیدہ اور آپ کے بعد میری امت پر میری حجتیں ہیں۔
اور وہ آپ کے اوصياء اور آپ کے جانشین اور آپ کے بعد میری امت میں سے بہترین ہیں، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم، ان کے ذریعے سے میں اپنے دین کو ظاہر کرتا ہوں اور ان کے ساتھ اپنے کلمه کو بلند کرتا ہوں۔اور میں ان کے آخری کے ذریعے زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا اور میں اسے زمین کے مشرق اور مغرب کا مالک بناؤں گا اور ہواؤں کو اس کے تابع کر دوں گا۔
اور میں اس کے سامنے جابروں کو ذلیل کروں گا اور اسباب اس کے ہاتھ میں دوں گا اور میں اپنے لشکر سے اس کی مدد کروں گا اور میں اپنے فرشتوں سے اس کی مدد کروں گا کہ وہ میری دعوت کو ظاہر کرے، اور لوگوں کو میری توحید کی طرف جمع کرے؛ پھر میں اس کی حکومت جاری رکھوں گا۔
👈 اور ایام کو اپنے ولیوں کے درمیاں ♦️
قیامت تک گردش کراتارہوں گا)۔
📚 کمال الدين و تمام النعمة صفحہ 254-256۔
⚠️ پہلے ہی بیان کیا جا چکا تھا کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت ان کی اولاد، مہدیین کے حکمرانی سے جاری رہے گی، اور اس مقدس حدیث میں خداوند عالم امام مہدی کے بارے میں فرماتا ہے:
👈 (پھر میں اس کی حکومت جاری رکھوں گا اور ایام کو اپنے ولیوں کے درمیاں قیامت تک گردش کراتارہوں گا) ♦️
یعنی امام مہدی کی حکومت ان کی اولاد، مہدیین کے ذریعہ قیامت تک رہے گی اور دن ان کے درمیان گردش کریں گے۔ پھر حجت ابن الحسن (ع) کے بعد اولیاء اللہ ان کی اولاد میں سے بارہ مہدیین ہیں۔
.
حديث 40
بہت سی روایات ہیں جن کی سندیں مستند ہیں اوررسول خدا (ص)،علی بن ابی طالب (س) اور فاطمہ (س) کی اولاد میں سے بارہ امام اور وصی کے بعد اوصیا کے وجود پر دلالت کرتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ان اماموں کی تعداد
امام علی (ع) سمیت، وہ تیرہ اماموں اور جانشینوں تک پہنچتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ بعض روایات استعمال ہوتی ہیں،
امام مہدی علیہ السلام کی اولاد میں سے مہدی اول کو ان کے آباء و اجداد میں خصوصیت کی وجہ سے بارہ اماموں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ہم ان میں سے ایک روایت کو بغیر وضاحت کے حوالہ دیتے ہیں:
✅ پہلی روايت :
الشيخ الكليني: محمد بن يحيى ، محمد بن أحمد سے، محمد بن الحسين سے، أبي سعيد العصفوري سے، عمرو بن ثابت سے، أبي الجاورد سے، أبي جعفر ع سے ، آنحضرت نے فرمایا:
⚫️ (قال رسول االله(ص) إني و اثني عشر من ولدي وأنت يا علی، زر الأرض يعني أوتادها وجبالها، بنا أوتد الله
الأرض أن تسيخ بأهلها، فإذا ذهب الاثنا عشر من ولدي ساخت الأرض بأهلها ولم ينظروا).
⚫️ رسول خدا (ص) نے فرمایا:
(میں اور میری اولاد میں سے بارہ افراد اور آپ، اے علی! ہم زمین کی پناہ گاہیں ہیں۔یعنی اس کے پہاڑوں اور استحکام کی وجہ۔
خدا نے ہمارے ذریعے زمین کو مستحکم بنایا، کہ وہ اپنے لوگوں کو نہ نگل دے۔
پس جب میرے بارہ بیٹے چلے جائیں گے تو زمین اپنے لوگوں کو نگل جائے گی اور انہیں کبھی مہلت نہیں ملے گی)۔
📚 کافی: ج 1 ،ص534.
حالیہ تبصرے